مقامی پولیس کمشنر نے بتایا کہ پولیس کو ایک کمپیوٹر اور موبائل فون ملا ہے جس پر
سکول کے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیوز موجود تھیں
بھارت میں پولیس نے ایک چھ سالہ بچی کے ساتھ اس کے سکول پر ہی جنسی زیادتی کرنے کے الزام میں ایک شخص کو گرفتار کیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم سکیٹنگ کے استاد ہیں اور ان کے کمپیوٹر پر بچوں کی غیر مہذبانہ ویڈیوز موجود تھیں۔
بنگلور میں اس سکول میں عملے کے ہاتھوں ایک بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد والدین نے اس سکول کا بائیکاٹ شروع کر دیا تھا۔
کلِک بنگلور: سکول کے عملے کا چھ سالہ بچی کے ساتھ ’ریپ‘
یہ مبینہ واقعہ 2 جولائی کو پیش آیا تاہم متاثرہ بچی کے والدین کو اس بات کا چند روز بعد پتا چلا جب بچی نے پیٹ میں درد کی شکایت کی اور اسے ہسپتال لے جایا گیا۔
مقامی پولیس کمشنر نے بتایا کہ پولیس کو ایک کمپیوٹر اور موبائل فون ملا ہے جس پر سکول کے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ویڈیوز موجود تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ ملزم کا کہنا ہے کہ اس کے پاس دیگر آلات بھی موجود ہیں تاہم اس بات کی تصدیق ہونا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ابھی اس سلسلے میں تفتیش جاری ہے اس لیے دوسری کسی گرفتاری کے بارے میں بات نہیں کی جا سکتی۔
یہ گرفتاری والدین اور دیگر لوگوں کی جانب سے دو روز تک احتجاج کے بعد عمل میں آئی ہے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ سکول نے ان الزامات کی تفتیش صحیح طریقے سے نہیں کی۔
بھارت میں 2012 میں جنوبی دہلی میں ایک لڑکی کی جنسی زیادتی کے بعد موت کے نتیجے میں ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا
والدین کا کہنا تھا کہ جب تک بچوں کے لیے بہتر سکیورٹی کی یقین دہانی نہیں کروائی جاتی تب تک وہ اپنے بچوں کو سکول میں نہیں بھیجیں گے۔
سکول کے چیئرمین رستم کیراوالا نے اپنی ’مخلصانہ معذرت‘ پیس کرنے کے لیے ساتھ ساتھ پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کا وعدہ کیا ہے۔
نئی دہلی میں موجود بی بی سی کے نامہ نگار ایڈریو نارتھ کا کہنا ہے کہ ریپ کا تازہ واقعہ ملک میں پیش آنے والے واقعات کا سلسلہ ہے۔
خیال رہے کہ بھارت میں 2012 میں جنوبی دہلی میں ایک لڑکی کی جنسی زیادتی کے بعد موت کے نتیجے میں ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔
متاثرہ طالبہ کا تعلق ریاست یوپی سے تھا جو نفسیات کی تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ تھیں اور گھر جانے کے لیے جس بس پر سوار ہوئیں اسی بس میں ان پر اور ان کے دوست پر حملہ کیا گيا تھا۔
اس کے بعد ملک میں خواتین کے تحفظ کے لیے سخت قوانین بنائے گئے لیکن عمومی رائے یہی ہے کہ یہ قوانین ایسے واقعات کو روکنے کے لیے کافی نہیں۔