ڈھاکہ:بنگلہ دیشی پولیس یہ تصدیق کرنے میں لگی ہے کہ ڈھاکہ کے ایک ریسٹورنٹ پرحالیہ دہشت گردانہ حملے میں ملوث حملہ آوروں کی جو شناخت سوشل میڈیا پر دوستوں کے ذریعہ سامنے آئی ہے آیا وہ واقعی درست بھی ہے ۔یہ اطلاع آج ذمہ داران نے دی ہے ۔ حملے میں 20 لوگ مارے گئے تھے ۔
دولت اسلامیہ [داعش] نے پانچ لڑاکوں کی تصاویر پوسٹ کی ہیں اور کہا ہے کہ جمع کو ڈھاکہ کے سفارتی علاقے میں جو قتل کی واردات ہوئی اس می یہ لوگ ملوث تھے ۔ہلاک ہونے والے ہندستانی، جاپانی، اطالوی اور امریکی تھے ۔ داعش نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ” صلیبی ممالک جان لیں جب تک ان کے طیارے مسلمانوں کا قتل کررہے ہیں وہ محفوظ نہیں ہیں”۔
فیس بک پر چسپاں تصاویر میں پانچ میں سے تین کے نام نبراس اسلام، روہن امتیاز اور میر سامع مبشر بتائے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ دہشت گردوں نے بنگلہ دیشی راجدھانی میں ‘ہولے آرٹیسن بیکری’ نامی کیفے پر گزشتہ جمعے کی شب حملہ کیا تھا اور وہاں موجود بیس شہریوں کو ہلاک کرنے کے بعد باقی لوگوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ پولیس نے اگلی صبح ریستوراں پر دھاوا بول کر تیرہ یرغمالیوں کو، جن کی اکثریت بنگلہ دیشیوں پر مشتمل تھی، رہا کروا لیا اور چھ دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس کارروائی کے دوران دو پولیس اہلکار بھی ہلاک ہو گئے تھے ۔
حملہ آوروں کی تصاویر جب سوشل میڈیا میں سامنے آئیں تو حملہ آوروں کے چند ایک دوستوں اور اہلِ خانہ نے اُنہیں پہچان لیا۔ ڈھاکہ کے ڈپٹی پولیس کمشنر مسعود الرحمان کے مطابق پولیس اب اس امر کی تصدیق کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ آیا سوشل میڈیا کے ذریعے ہونے والی یہ پہچان درست ہے ۔
آن لائن میڈیا کے مطابق سوشل میڈیا نیٹ ورک فیس بُک پر چسپاں کردہ پیغامات میں دوستوں نے کہا تھا کہ اُنہوں نے چھ میں سے تین حملہ آوروں کو پہچان لیا ہے ۔ رائٹر نے مسعود الرحمان کے حوالے سے بتایا کہ پولیس حملہ آوروں کی سوشل میڈیا پر موجود مبینہ تصاویر کا اُن کی لاشوں کے ساتھ موازنہ کرنے کے علاوہ اُن کے اہلِ خانہ سے بات چیت بھی کرے گی اور ڈی این اے ٹیسٹ بھی کروائے گی۔
دریں اثنا وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے اس سانحے پر منائے جانے والے قومی سوگ کے دوسرے روز آج آرمی اسٹیڈیم میں جا کر مرنے والوں کے تابوتوں پر پھول چڑھائے ۔
ٹی وی فوٹیج میں دکھایا گیا کہ کیسے خاتون وزیر اعظم اسٹیج پر کچھ دیر کے لیے خاموش کھڑی رہیں، جس کے بعد اُنہوں نے تابوتوں پر پھول رکھے ۔ وزیر اعظم کے وہاں سے رخصت ہونے کے بعد وُزراء، سفارت کاروں اور سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ مرنے والوں کے رشتے داروں اور دوستوں نے بھی میتوں کا آخری دیدار کیا۔
داعش اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر چکی ہے تاہم بنگلہ دیشی حکومت اس اصرار پر قائم ہے کہ اس سانحے میں ملک کے اندر سرگرم انتہا پسند وں کا عمل دخل ہے ۔