پروفیسر انیس الزماں کا کہنا ہے کہ انھیں ٹیکسٹ میسیج کے ذریعے جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی ہے
بنگلہ دیش کے معروف ماہرِ تعلیم پروفیسر انیس الزمان کا کہنا ہے کہ انھیں دہریوں کی حمایت کرنے پر جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی ہے۔
بنگلہ دیش میں اب تک پانچ دہریوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے جبکہ ایک شدت پسند گروہ کی جانب سے حال ہی میں ایک ناشر پر کیے جانے والے حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے۔
بنگلہ دیش میں پبلشر کو قتل کر دیاگیا
پروفیسر انیس الزمان نے مقامی میڈیا کو بتایا ہے کہ موبائل فون پر ٹیکسٹ میسیج ملنے کے بعد انھوں نے پولیس میں شکایت درج کروا دی ہے۔
پروفیسر انیس الزمان بھی ان کئی معروف شخصیات میں شامل ہیں جن کی جانب سے جاری ایک بیان میں حکومت پر زور ڈالا گیا ہے کہ وہ حالیہ ہلاکتوں کے حوالے سے کوئی کارروائی کرے۔
دوسری جانب حال ہی میں دو غیر ملکیوں کی ہلاکت کے بعد امریکہ کی جانب سے بھی اپنے شہریوں کےلیے بنگلہ دیش کے سفر کے دوران احتیاط برتنے کی ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔
حال ہی میں ایک پبلیشر کی ہلاکت کے بعد دارالحکومت ڈھاکہ میں مظاہرے ہوئے تھے
گذشتہ ماہ ایک جاپانی باشندے کو گولی مار کر ہلاک کردیا گیا تھا جبکہ ایک اطالوی امدادی کارکن کو بھی ستمبر میں بنگلہ دیش کے شہر ڈھاکا میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ خیال رہے کہ ان حملوں کی ذمہ داری نام نہاد دولت اسلامیہ نے قبول کر لی تھی۔
امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے سفری ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ ’قابل اعتماد ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے تحت یہ خدشہ موجود ہے کہ بنگلہ دیش میں شدت پسندوں کی جانب سے غیر ملکیوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ جن میں غیر ملکیوں کے بڑے اجتماعات بھی شامل ہیں۔‘
اپنی ولدیت کے نام سے معروف انیس الزمان ڈھاکہ یونیورسٹی میں بنگالی ادب کے پروفیسر ہیں۔ انھوں نے مقامی خبر رساں ادارے bdnews24.com کو دھمکی آمیز ٹیکسٹ میسیج کے بارے میں تفصیلات بتائی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جان سے مارنے کی دھمکی والے میسیج میں ’شُستہ انگریزی زبان میں پوچھا گیا ہے کہ میں بلاگرز کی حمایت کیوں کرتا ہوں اور کیا میں چاقو کے وار سے مرنا چاہتا ہوں؟‘