لیبیا کے سرکاری حکام نے متبنہ کیا ہے کہ اگر تریپولی ایئرپورٹ پر جنگ جاری رہتی ہے تو ملک کے ٹوٹ جانے کا خطرہ ہے
لیبیا میں حکام کے مطابق مسلح جنگجوؤں نے کئی دن کی لڑائی کے بعد ملک کے مشرقی شہر بن غازی میں سپیشل فورسز کے ایک اڈے پر قبضہ کر لیا ہے۔
سپیشل فورسز کے ایک افسر فدال الحسی نے منگل کو صحافیوں کو بتایا کہ ’شدید گولہ باری کے بعد ہم نے بن غازی میں فوجی اڈے سے پسپائی اختیار کر لی ہے۔‘
جنگجوؤں نے بھی اپنے ایک بیان میں اس کی تصدیق کی کہ انھوں نے فوجی اڈے پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
دریں اثنا اٹلی نے لیبیا کی حکومت کو ٹریپولی میں تیل کے ڈپو میں لگنے والی آگ پر قابو پانے میں مدد دینے کی پیشکش کی ہے۔
واضح رہے کہ سنہ 2011 میں کرنل معمر قذافی کی حکومت کوگرانے والے جنگجوؤں کا ملک کے بیشتر حصے پر کنٹرول ہے اور ملک بدترین تشدد کے دور سے گزر رہا ہے۔
حکام کے مطابق پیر کو بھی بن غازی میں حکومت کے وفادار فوجیوں اور اسلام پسند جنگجوؤں کے درمیان تصادم میں کم از کم 38 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
“شدید گولہ باری کے بعد ہم نے بن غازی میں فوجی آڈے سے پسپائی اختیار کر لی ہے۔”
سپیشل فورسز کے ایک افسر فدال الحسی
اس سے قبل دارالحکومت ٹریپولی میں ایئرپورٹ کے نزدیک ایک ہفتے سے جاری جنگ میں کم از کم 97 افراد ہلاک جبکہ 400 سے زیادہ افراد زخمی ہوگئے تھے۔
حکومت نے الزام عائد کیا ہے کہ مسلح گروپوں کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے ٹریپولی میں تیل کے ڈپو میں آگ بھڑک اٹھی ہے جس پر لڑائی کی وجہ سے قابو نہیں پایا جا سکا۔
تیل کا یہ ڈپو بین الاقوامی ایئرپورٹ کو جانے والی سڑک پر ٹریپولی سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
واضح رہے کہ کرنل قذافی کے بعد سے ایئرپورٹ زنٹا جنگجوؤں کے کنٹرول میں رہا ہے لیکن اب اسے اسلامی لیبیا انقلابی آپریشن روم (ایل آر او آر) اس پر قبضہ جمانا چاہتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں متحارب گروپ سرکاری تنخواہ پر ہیں۔
لیبیا کے سرکاری حکام نے متبنہ کیا ہے کہ اگر ٹریپولی ایئرپورٹ پر جنگ جاری رہی تو ملک کے ٹوٹ جانے کا خطرہ ہے۔
کرنل قذافی کے حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ملک کے اکثر علاقوں پر کئی مسلح گروپوں کا قبضہ ہے اور حکومت ان پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ اس کی وجہ سے بعض مغربی ممالک نے لیبیا سے اپنے شہریوں کو اور اپنے سفارتی عملے کو واپس بلا لیا ہے۔