جمعرات کے روز مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں 130 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے تھے بوسنیا ہیزوگوینا میں مظاہرین نے چند حکومتی عمارتوں کو آگ لگا دی ہے۔ 1992-95 کے بعد سے یہ ملک میں جاری بدترین کشیدگی ہے۔
گذشتہ تین روز سے ملک کے مخلتف حصوں میں سینکڑوں افراد مظاہرے کر رہے ہیں۔ ان مظاہروں کی وجہ ملک میں بڑھتی ہوئی بے روز گاری اور سیاستدانوں میں بے روزگاری کے حل کے لیے صلاحیتوں کی کمی بتائی جا رہی ہے۔
دارالحکومت سارا ژیوو اور شمالی قصبے توزلہ میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس استعمال کی۔
سارا ژیوو میں ایوانِ صدر سے دھوئیں کے کالے بادل اٹھتے دکھائی دے رہے ہیں۔
مقامی اخبار نیونی آواز کا کہنا ہے کہ پولیس نے ایوانِ صدر پر پتھراؤ کرنے ہوئے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پانی کا بھی استعمال کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق کچھ لوگوں نے ایوانِ صدر میں گھسنے کی کوشش بھی کی ہے۔
جمعرات کے روز مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں 130 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے تھے جن میں سے بیشتر پولیس اہلکار تھے۔
خبر رساں ادارے اے پی سے بات کرتے ہوئے احتجاج میں شریک ایک شخص کا کہنا تھا کہ ’لوگ احتجاج اس لیے کر رہے ہیں کیونکہ وہ بھوکے ہیں، کیونکہ ان کے پاس روزگار نہیں ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ حکومت مستعفی ہو جائے۔‘
بوسنیا میں بے روزگاری کی شرح تقریباً 40 فیصد ہے۔
یہ کشیدگی اس ہفتے کے آغاز پر قصبے توزلہ میں اس وقت شروع ہوئی جب کچھ فیکٹریوں کو بند کیا گیا اور انہیں فروخت کر دیا گیا۔ مقامی آبادی کے زیادہ تر افراد انہی فیکٹریوں میں کام کرتے تھے۔
مقامی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق بوسنیا کے دونوں حصوں کے سربراہان توزلہ کے سعید کوسوک اور سنیکا۔دوبئے کے منیب ہوزے ناجک استعفیٰ دینے والے ہیں۔
نوسینائی صدارت کے چیئرمین زیلکو کومسک کا کہنا ہے کہ ان مظاہروں کے ذمہ دار سیاست دان ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ مسئلہ کئی سالوں سے بڑھتا جا رہا ہے تاہم اب حالات بہت زیادہ خراب ہوگئے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت کا ہنگامی اجلاس طلب کریں گے۔