سری نگر: بڑے کے گوشت کی خرید و فروخت پر پابندی عائد کئے جانے کے خلاف وادی کشمیر بشمول گرمائی دارالحکومت سری نگر میں ہفتہ کے روز مکمل ہڑتال کی گئی جس کی وجہ سے نظام زندگی مکمل طور پرمفلوج رہا۔
حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کے سربراہان سید علی گیلانی اور میرواعظ مولوی عمر فاروق، جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے چیرمین محمد یاسین ملک، متحدہ مجلس علماءجموں وکشمیر، مجلس علماءاور مجلس تحفظ ایمان نے ہڑتال کا علان کردیا تھا۔ ریاستی ہائی کورٹ کی جموں شاخ نے 9 ستمبر کو گائے کو ذبح کرنے کے خلاف دائر کی گئی مفاد عامہ کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے جموں وکشمیر ریاست میں بڑے کے گوشت کی فروخت پر پابندی عائد کردی ۔ اس عدالتی فیصلے پر وادی کشمیر کی علیحدگی پسند، مذہبی اور سماجی تنظیموں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے جن کا کہنا ہے کہ یہ مداخلت فی الدین اور مذہبی جذبات سے کھلواڑ کے مترادف ہے ۔ وادی کے بیشتر علاقوں میں کل نماز جمعہ کے بعد احتجاجی مظاہرے کئے گئے جس دوران جنوبی کشمیر کے پلوامہ اور اننت ناگ اضلاع اور سری نگر کے ڈا¶ن ٹاون میں مظاہرین اور سیکورٹی فورسز کے مابین پُرتشدد جھڑپیں ہوئی تھیں۔ عدالتی فیصلے کے خلاف مزید احتجاجی مظاہروں کو روکنے کیلئے گرمائی دارالحکومت سری نگر کے شہر خاص ، ڈں ٹاون اور سیول لائنز کے مائسمہ میں ہفتہ کی علی الصبح سے ہی کرفیو جیسی پابندیاں نافذ کردی گئی تھیں۔علیحدگی پسند اور دیگر مذہبی جماعتوں کی طرف سے کی گئی ہڑتال کی وجہ سے سری نگر میں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر ٹریفک کی آمدورفت معطل رہی۔ اسٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن (ایس آر ٹی سی) بسیں بھی سڑکوں سے غائب رہیں۔ ہڑتال کی وجہ سے سرکاری دفاتر، بینکوں اور دیگر نجی دفاتر میں معمول کا کام کاج متاثر رہا جبکہ وادی بھر کے نجی و سرکاری اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں ٹھپ رہیں۔کشمیر یونیورسٹی نے آج لئے جانے والے تمام امتحانات ملتوی کردیے تھے ۔ جنوبی کشمیر کے تمام بڑے قصبوں اور تحصیل ہیڈکوارٹروں میں بھی مکمل ہڑتال کی گئی ہے ۔
جنوبی کشمیر سے موصولہ ایک رپورٹ کے مطابق حساس علاقوں میں امن واما ن کو برقرار رکھنے کیلئے سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کردی گئی تھی۔ شمالی کشمیر کے تمام قصبوں اور تحصیل ہیڈکوارٹروں میں بھی ہڑتال کی وجہ سے معمول کی سرگرمیاں مکمل طور پر مفلوج رہیں جہاں دکانیں اور تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر ٹریفک کی آمدورفت معطل رہی۔ امن وامان کو برقرار رکھنے کیلئے شمالی کشمیر کے بڑے قصبوں میں سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کردی گئی تھی۔وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام اور گاندربل سے بھی مکمل ہڑتال کی اطلاعات موصول ہوئیں۔دریں اثنا کشمیر انتظامیہ نے مزید احتجاجی مظاہروں کو روکنے کیلئے سری نگر کے پابندی والے علاقوں کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو سیل کردیا تھاجبکہ اِن علاقوں میں رہائش پذیر لوگوں سے کہا جارہا تھا کہ وہ اپنے گھروں تک ہی محدود رہے ۔ خودکار ہتھیاروں، لاٹھیوں اور ڈھالوں سے لیس سیکورٹی فورسز اور ریاستی پولیس کے سینکڑوں اہلکاروں کو شہر خاص اور ڈا¶ں میں پابندیوں کو سختی سے نافذ کرنے کیلئے تعینات کردیا گیا تھا۔ اِن علاقوں میں رہائش پذیر لوگوں نے الزام لگایا کہ انہیں اپنے گھروں سے باہر آنے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔ نالہ مار خانیار سے لیکر قمرواری اور نوہٹہ علاقوں جہاں کل نماز جمعہ کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے بھڑک اٹھے تھے ، کو خاردار تار اور حساس جگہوں پر بلٹ پروف گاڑیاں کھڑی کرکے بند کردیا گیا تھا۔ تاہم عید گاہ علاقے سے شیر کشمیر انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز (سکمز) کو جانے والی سڑک کو پابندیاں سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا۔ نالہ مار روڑ کے دونوں اطراف قائم بستیوں بشمول نواح کدل، بہوری کدل، راجوری کدل، صراف کدل، زینہ کدل، عالی کدل، نائد کدل، صفا کدل اور سیمنٹ برج کے رہائشیوں نے الزام لگایا کہ ہر دس فٹ کی دور پر تعینات سیکورٹی فورسز نے انہیں اپنے گھروں سے باہر آنے کی اجازت نہیں دی۔ یہاں تک کہ مضافاتی علاقوں سے آنے والے دودھ اور سبزی فروشوں کو بھی اِن علاقوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔ سری نگر کے سیول لائنز میں واقع مائسمہ علاقہ جہاں جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کا ہیڈکوارٹر ہیں، کی طرف جانے والی تمام سڑکوں کو خاردار تار سے سیل کردیا گیا تھا۔ بڈشاہ چوک، گا¶ کدل، ریڈ کراس روڑ اور حاجی مسجد روڑ پر سیکورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کردی گئی تھی جبکہ کسی بھی شخص کو مائسمہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔قابل ذکر ہے کہ جموں وکشمیر ملک کی واحد ایسی ریاست ہے جس کے پاس رنبیر پینل کوڈ (آر پی سی) کی صورت میں اپنا پینل کوڈ ہے جس کو یہاں سنہ 1862 میں ڈوگرہ حکومت نے نافذ کیا تھا۔ آر پی سی کے دفعہ 298 کی ذیلی دفعات کے مطابق جموں وکشمیر میں گائے ،بھینس اور ایسے ہی دوسرے جانوروں کو ذبح کرنا جرم ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والے کو دس سال قید کی سزا دی جاسکتی ہے اور بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑسکتا ہے ۔مسلم اکثریتی ریاست ہونے کی وجہ سے آر پی سی کے اس دفعہ پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوتا تھا۔ تاہم ریاست میں بڑے گوشت کی فروخت پر پابندی سے متعلق ہائی کورٹ کا فیصلہ اُس وقت اچانک سامنے آیا جب عید قربان چند ہی ہفتے کی دوری ہے ۔ اس عدالتی فیصلے کے خلاف وادی بھر میں شدید غصہ پایا جارہا ہے ۔