زیادہ پرانی بات نہیں کہ گجرات کے چیف منسٹر اور ہندوستان کے وزیراعظم کے عہدے کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی کے امیدوار نریندرا مودی نے نماز کی ٹوپی قبول کرنے سے انکار کردیا تھا جسے ایک مسلمان نے انہیں پیش کیا تھا-
اور اب بی جے پی، مودی کی ریلیوں میں شرکت کرنے والے مسلمانوں کو مفت ٹوپیاں اور برقعے تقسیم کر رہی ہے، ٹی وی اسکریں پر پتہ چلنا چاہئے کہ یہ لوگ مسلمان نظر آرہے ہیں- اگلے سال منعقد ہونے والے عام انتخابات سے پہلے بی جے پی مسلمانوں کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش میں مصروف ہے-بی جے پی کے ایک نمائندے نے جو حکمت عملی بنانے میں ماہر ہیں ایک صحافی کو بتایا؛‘‘ہم نہیں چاہتے کہ مسلمان کانگریس کو ووٹ دینے کے لئے متحد ہوجائیں- ہم چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ووٹ سیکولرپارٹیوں میں تقسیم رہیں’’-ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ لوک سبھا میں قریب قریب سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھریں-
گومگو کی کیفیت میں رہنے والے ووٹر ہمیشہ اس پارٹی سے جا ملتے ہیں جسے اقتدار مل سکتا ہے- اس حکمت عملی کے تحت ان ریاستوں کو اہمیت حاصل ہے جہاں مسلمانوں کے ووٹ زیادہ ہیں — یعنی اتر پردیش اور بہار-
گذشتہ انتخابات میں بی جے پی کواتر پردیش میں صرف دس نشستیں ملی تھیں اور بہار میں بارہ- اس وقت پارٹی چاہتی ہے کہ وہ اتر پردیش کی اسی نشستوں میں سے چالیس جیت لے اور بہار میں چالیس میں سے پچیس نشستیں مل جائیں- اسی لئے ضروری ہے کہ یوپی میں کانگریس، سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے درمیان اور حکمران جنتا دل (یونائٹیڈ)، کانگریس اور بہار کے سابق چیف منسٹر لالو پرساد یادو کی آر جے ڈی کے درمیان مسلمانوں کے ووٹ تقسیم ہو جائیں-مودی کا اندازہ ہے کہ اگر وہ گجرات میں مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں — جو ان کے مطابق 25 فی صد ہے —- تو کیوں نہ اس حکمت عملی کو قومی سطح پر آزمایا جائے؟ چنانچہ اس مقصد کے لئے وہ مسلمانوں کو خود آپس میں تقسیم کردینا چاہتے ہیں-گذشتہ مہینہ مودی نے بی جے پی سے کہا کہ وہ؛‘‘مظلوم اور پسماندہ مسلمانوں سے رابطہ کریں’’۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے گجرات میں لوکل باڈیز کے الیکشن میں ٹھیک اسی طبقے تک پہنچ کی تھی- دس ستمبرکو جے پور میں ہونیوالی ریلی میں بہت سے لوگوں نے نماز کی ٹوپیاں پہنی ہوئی تھیں-مدھیہ پردیش بھی پیچھے نہیں رہا- اس کے چیف منسٹر شو راج سنگھ چوہان خود کو اعتدال پسند ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں- 25 ستمبر کو بھوپال میں منعقد کی گئی ایک ریلی کے بارے میں وہاں بی جے پی کے اقلیتوں کے شعبے کے سربراہ ہدایت اللہ شیخ نے کہا ‘‘ہم اس بات کویقینی بنانا چاہتے تھے کہ وہاں لوگ (مسلمان) نظر بھی آئیں’’-
جے پور میں مودی کی ریلی کے لئے بی جے پی نے پانچ ہزار ٹوپیاں اور برقعے مفت تقسیم کئے گئے- عام طور پر جو عورتیں برقع نہیں پہنتیں انہوں نے بھی برقع پہن کر ریلی میں شرکت کی- اور یہ سب کچھ ایک ایسی سیاسی پارٹی نے کیا جومسلمانوں کو سماجی لحاظ سے پسماندہ سمجھتی ہے، اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ ان کے پرسنل لاء کو ختم کرکے ایک یکساں سول کوڈ نافذ کیا جائے، بلکہ حقیقت میں تو وہ اقلیتوں کے نظریہ کے قانونی جوازپربھی سوال اٹھاتی ہے-
اس پارٹی نے اقلیتی کمیشن کے قیام کی بھی مخالفت کی تھی اور مطالبہ کیا تھا کہ اس کے بجائے ایک انسانی حقوق کا کمیشن قائم کیا جائے-صرف یہی نہیں، ہندوستان کے مسلمانوں کی وفاداری پر شک کرتے ہوئے بی جے پی نے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اس بات کا ثبوت دیں- اس کے ضمیر نے اس بات پر بھی خلش نہیں محسوس کی کہ جب اس کے ایک جلسے میں جس میں صرف مسلمان شریک تھے پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی حمایت کی-
4 اکتوبر 1988 کو وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے آل انڈیا کنونشن آف مسلم ویمن کے ایک جلسے سے خطاب کیا تھا جو بی جے پی کی عورتوں کے شعبے کی جانب سے دہلی اسمبلی کے انتخابات کے موقع پرمنعقد کیا گیا تھا-
پوری تقریرمیں فراوانی کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا- یہ رجحان 1995 ہی میں 1996 کے عام انتخابات سے ایک سال پہلے شروع کر دیا گیا تھا- یہ پہلے انتخابات تھے جو 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کے گرائے جانے کے بعد منعقد ہورہے تھے-بی جے پی کی ہر ممکن کوشش یہی تھی کہ وہ اپنے پچھلے جرم کی تلافی کرے- اس پالیسی کے پیچھے بی جے پی کی مسلمانوں کے لئے گہری نفرت پنہاں ہے — انہیں دھوکا دینا- ان اٹھارہ برسوں میں بی جے پی نے ایک بار بھی کوشش نہیں کی کہ مسلمانوں کو مراعات دی جائیں، ان کے مسائل کو حل کیا جائے یا اپنے انتہا پسند نظریات میں نرمی لائی جائے-بی جے پی — راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ اور ان کی پیش رو تنظیموں کا جنہیں مجموعی طور پر سنگھ پریوار کہا جاتا ہے ایک بنیادی نقطء نظر ہے جس میں مصالحت کے لئے کوئی جگہ نہیں-مسلمان اور عیسائی مذہب تبدیل کرنے سے پہلے ہندو تھے جن کی ‘‘شدھی’’ کرکے دوبارہ ہندو جاتی میں واپس لانا ہوگا- لیکن انہیں اس بات کی اجازت نہیں ہوگی کہ وہ ہندووں میں اپنے مذہب کی تبلیغ کریں یا ان کے مذہب پر نکتہ چینی کریں-انہیں ہندو ثقافت (یعنی ہندو مذہب کے اعتقادات) اختیارکرنی ہوگی، البتہ وہ اپنے اپنے مذہبی رسومات کی پابندی کرسکتے ہیں-یہ ہندوستان کے سیاسی کلچر کے لئے سنگین خطرہ ہے جسے بعض ‘‘لبرلز’’ اور میڈیا میں ان کے حمایتی نظرانداز کررہے ہیں- فریب خوردہ لوگوں کا اپنا ایجنڈہ ہے- مغربی طاقتیں جو مذہی آزادی کی علمبردار ہیں جب ان کے اسٹراٹیجک اور معاشی مفادات کی بات آتی ہے تو پیچھے ہٹ جاتی ہیں —ان سب باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر بار انتخابات کے موقع پر بی جے پی نک چڑھے پن سے مسلمانوں کے ساتھ لگاوٹ کی باتیں کرتی ہے جو گنہگاروں کے پچھتاوے کا منہ بولتا ثبوت ہے-ہندوستان کی آزادی کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر مسٹر ایل کے ایڈوانی نے بی جے پی کے پارٹی اخبار ‘‘بی جے پی ٹو ڈے’’ میں ایک مضمون لکھا تھا. یہ مضمون صرف مسلمانوں کے بارے میں تھا جس میں انہوں نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ وہ ہماری قومی ثقافت کی الہامی اور علامتی نشانیوں کو قبول کریں مثلاً رام، کرشنا، بدھا، مہاویر اور نانک وغیرہ-
اٹل بہاری واجپائی کا لہجہ تو معتدل ہوتا ہے لیکن ان کی پالیسی یا ان کا نقطء نظر بالکل نہیں- اس کی مثال ان کی مشہور تقریر ہے جو انہوں نے 21 اپریل 2002 کو گوا میں کی تھی جب گجرات ابھی جل رہا تھا-‘‘جہاں بھی مسلمان ہیں،’’ انہوں نے کہا ‘‘وہ دوسروں کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے، امن چین سے رہنے کے بجائے وہ دوسروں کے ذہن میں خوف اور دہشت پیدا کرکے اپنے مذہب کی تبلیغ اور تشہیر کرنا چاہتے ہیں’’اس بات کی مثال ملنا مشکل ہے کہ کسی قوم کے چیف ایگزیکیو ٹو نے آبادی کے ایک پورے حصے کو، اپنے عہدے کے حلف کو توڑتے ہوئے نشانہ بنایا ہو. اس کے بعد اس کی تردید کرتے ہوئے جو کچھ کہا اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا-ایل کے ایڈوانی نے 13 مارچ 2004 کو کہا تھا؛
‘‘صرف جے بی پی ہی پاکستان کے ساتھ مسائل کا حل ڈھونڈھ سکتی ہے کیونکہ ہندو یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو بھی کرینگے وہ بکاؤ نہیں ہوگا، کانگریس ایسا کبھی نہیں کرسکتی کیونکہ ہندو اس پر بھروسہ نہیں کرینگے-’’ یعنی خارجہ پالیسی بھی فرقہ واریت سے نہیں بچی –