بیشتر ممالک میں بچے انتہائی وزنی بستے کمر پر اٹھائے اسکول جاتے ہیں۔ بچے کتنا وزن اٹھا سکتے ہیں یا انہیں پیٹھ پر کتنا وزن اٹھانے دینا چاہیے۔ ماہرین متفق ہیں کہ ضرورت سے زیادہ اٹھانے سے بچوں کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔بچوں کے اسکول کے بستوں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ بچے کے وزن کے دس سے بارہ فیصد سے زیادہ نہیں ہونے چاہیں۔ تاہم اب موجود ہ دور میں ماہرین اس اصول کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پیٹھ پر لٹکانے والی بیگز کے بارے میں یہ ہدایات اب ماضی کا حصہ بن چکی ہیں۔ اس موقع پر یہ سوال بھی کیا جاتا ہے کہ بستہ کتنا بھاری ہو سکتا ہے؟ اور پیٹھ پر اٹھائے جانے والے ایک بیگ میں مزید کیا خصوصیات ہونی چاہییں؟ ایک تازہ جائزے کے مطابق بستہ جسمانی وزن کے دس سے بارہ فیصد تک ہونے کا اصول پہلی عالمی جنگ کے دور کا ہے اور اس کی وجہ سے یہ تھی کہ طویل سفر کے دوران بستہ اٹھانے والا کہیں جلدی تھک نہ جائے۔ یہاں پر طویل سفر سے مراد کم از کم بیس کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ موجودہ دور میں بچے اسکول جانے کے لیے اتنا لمبا سفر پیدل طے نہیں کرتے اوراس وجہ سے ان پر یہ قانون لاگو نہیں ہوتا۔کڈز چیک نامی ایک جائزے میں بھی اس کی تصدیق کی گئی ہے کہ جہاں تک بستہ اٹھانے کا سوال ہے، تمام بچے یکساں نہیں ہوتے۔ کچھ بچے اپنے جسمانی وزن کا صرف ایک تہائی ہی اٹھا سکتے ہیں جبکہ چند بچے اس سے بھی کم وزن کے ساتھ تھک جاتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں انفرادی عوامل کو مدنظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ تاہم اس کے باوجود بھی ماہرین کی رائے ہے کہ اسکول کو بستوں میں اضافی بوجھ ڈالنے سے پرہیز کیا جائے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ لازمی نہیں ہے کہ ہلکا بستہ معیاری ہو گا۔ مزید یہ کہ جسمانی حرکت کو مد نظر رکھ کر بنائے جانے والے اسکول کے بستے ہی خریدنے چاہییں کیونکہ ان کی وجہ سے جسم پر نا مناسب بوجھ نہیں پڑتا۔اس سلسلے میں ضروری ہے کہ بچوں کے لیے ایک ایسے مناسب بستے کا انتخاب کیا جائے، جو ریڑھ کی ہڈی پر کم سے کم بوجھ ڈالے۔ اس وجہ سے ماہرین کا کہنا ہےکہ بستہ جسم کے بہت قریب یعنی جسم سے تقریباً چپکا ہوا ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے والدین کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ جب بھی بچے اسکول بیگ پیٹھ پر لٹکائیں تو اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ بستہ ڈھیلا یا لٹکا ہوا نہ ہو اور بچے کے حساب سے بیگ بہت بڑا نہ ہو کیونکہ یہ سارے عوامل اضافی بوجھ کا سبب بنتے ہیں۔