خود کو سپرماں سمجھنے والی اکثر مائیں اس بات کے بارے میں زیادہ فکر مند نظر آتی ہیں کہ لوگ انھیں ایک اچھی ماں تصور کرتے ہیں یا نہیں؟عظیم فرانسیسی حکمران اورمفکر نپولین بوناپارٹ کا تاریخی جملہ ”تم مجھے بہترین مائیں دو میں تمھیں عظیم قوم دوں گا” یہ مقولہ ایک عالمگیرحقیقت کا حامل ہے جس کا اعتراف دنیا کی ہر قوم کرتی ہے لیکن کیا ایک ماں کے لیے ایک اچھی یا بہترین ماں بننا آسان کام ہے؟ اس موضوع سے متعلق شائع ہونے والی ایک مطالعاتی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود کو بچے کے لیے بہترین ماں ثابت کرنے کی کوششیں کرنے والی عورتوں میں شدید ذہنی دباؤ میں مبتلا ہونے کا امکان پایا جاتا ہے۔تحقیقی ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی مائیں جو گھریلو مصروفیات اور چاروں جانب سے ذمہ داریوں سے گھری ہوئی ہوتی ہیں جب کہ ان کے فرائض میں چھوٹے بچوں کی پرورش اور نگہداشت بھی شامل ہو تو ایسی مائیں “سپر ماں” بننے کی کوشش کرتے ہوئے اکثر افسردگی کا شکار ہو جاتی ہے خاص طور پر دوسرے لوگوں کے سامنے اپنے بچے کی بری عادتوں یا بد تمیزی کرنے پرخود کو شدید دباؤ کی کیفیت میں ڈال لیتی ہیں جس کی وجہ سے ذہنی صحت کے مسائل کے حوالے سے زیادہ حساس ہو سکتی ہیں۔یونیورسٹی آف مشی گن سے منسلک تحقیق کاروں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ خود کو سپرماں سمجھنے والی اکثر مائیں اس بات کے بارے میں زیادہ فکر مند نظر آتی ہیں کہ لوگ انھیں ایک اچھی ماں تصور کرتے ہیں یا نہیں؟ لہذا بھاری ذمہ داری سے نبرد آزما ایسی عورتیں ایک بہترین ماں بننے کی پوری کوشش کرتی ہیں لیکن اس کوشش کی وجہ سے ان میں ذہنی دباؤ میں مبتلا ہونے کا امکان اور بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے جو ان میں ایسے جذبات پیدا کرتا ہے کہ وہ ضرورت پڑنے پر کسی سے مدد مانگنے کے لیے خود کو تیار نہیں کر پاتیں۔مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ عام طور پر بچوں کے حوالے سے یہ فرض کیا جاتا ہے کہ انھیں اچھی عادتوں اور بہترین برتاؤ کا حامل ہونا چاہیئے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر پریشانی اسی بات سے شروع ہو جاتی ہے کیونکہ عمومی رائے عامہ کے مطابق بچے کے برتاؤ کے مسائل سے ایک ماں کا منفی تصور پیدا ہوتا ہے۔مشی گن یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے تحقیق کار ڈاکٹر تھامسن نے مطالعے کے لیے 113عورتوں سے ایک سوالنامہ بھرنے کے لیے کہا جس میں سوال کیا گیا کہ وہ خود کو کیسی ماں تصور کرتی ہیں ؟اس مطالعے میں شریک ماؤں سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اس بات سے اتفاق کریں گی یا اختلاف کہ ایک ماں کو اپنے بچوں کے تمام کام خود اپنے ہی ہاتھوں سے انجام دینے چاہیئں؟ اور کیا وہ سمجھتی ہیں کہ دوسری ماؤں کی نسبت ان کی پریشانیاں بہت زیادہ ہیں ؟آخری سوال میں ماؤں سے پوچھا گیا کہ کیا وہ بچے کی ضرورت سے پہلے اپنی کسی ضرورت کو پورا کرنے پر خود کو قصوروار خیال کرتی ہیں ؟ ماہرین نفسیات نے نتیجے سے اخذ کیا کہ ایسی مائیں جواس بات کے لیے زیادہ فکرمند تھیں کہ لوگ ان کے بارے میں ہمیشہ ایک اچھی ماں کا تصور قائم رکھیں ان میں ذہنی تناؤ یا افسردگی کا امکان بہت زیادہ تھا۔ان کی نسبت ایسی مائیں جو سمجھتی تھیں کہ ایک ماں کی مکمل ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھانا اتنا آسان کام بھی نہیں ہے، انھوں نے ضرورت پڑنے پر دوسروں سے مدد مانگنے کے خیال سے اتفاق کیا۔علاوہ ازیں وہ مائیں جو محسوس کرتی تھیں کہ بچے کی ہر بدتمیزی پر اسے اسی وقت ڈانٹنا چاہیئے یا سزا دینی چاہیئے انھوں نے خود کو بہت زیادہ ذہنی دباؤ میں مبتلا کر رکھا تھا۔ڈاکٹر تھامسن نے کہا کہ اگر بچہ بدتمیز ہے تو یہ آپ کو ایک بری ماں ثابت کرتا ہے لیکن یہ معاملہ بجائے ذہنی دباؤ میں مبتلا ہونے کے حکمت عملی اختیار کرنے کا ہوتا ہے۔ میل آن لائن کے مضمون کے مطابق عورتوں میں ڈپریشن کے امکانات کے حوالے سے شائع ہونے والے ایک حالیہ مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ پہلی بار ماں بننے والی ماؤں میں عام طور پر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے حوالے سے ڈپریشن کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں اور اس قسم کے ذہنی دباؤ کا سامنا ایک حاملہ ماں دوران حمل کرتی ہے جبکہ وہ اس شدید ذہنی تناؤ کو بچے کی پیدائش کے چار سال بعد ایک بار پھر سے محسوس کرنے لگتی ہے۔