تازہ ترین سانحے میں ملوث دونوں کشتیاں سنیچر کو لیبیا سے چلی تھیں اور ان کی منزل یورپ تھی۔
تارکینِ وطن کی عالمی تنظیم کا کہنا ہے کہ اگر بہتر امدادی آپریشن کی سہولت موجود ہوتی تو بحیرۂ روم میں ڈوبنے والے 300 سے زیادہ تارکین وطن میں سے بہت سوں کو بچایا جا سکتا تھا۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن کے ترجمان لیونارڈ ڈوائل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اٹلی کی جانب سے ایسے تارکینِ وطن کے بچاؤ کی کارروائیاں محدود کیے جانے کا یورپ جانے کے لیے سمندر کا رخ کرنے کرنے والوں کی تعداد پر کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اب انسانی سمگلر ان غیرقانونی تارک
ینِ وطن کو موسم کی سختی کا خیال کیے بغیر ہی سردی کے دنوں میں افریقہ سے یورپ کی جانب روانہ کرنے لگے ہیں۔
یورپی یونین کے ممالک کو خدشہ ہے کہ اگر وہ بحیرۂ روم میں ایسے تارکینِ وطن کے بچاؤ کے لیے بڑے پیمانے پر امدادی کارروائیاں کرتے رہے تو اس سے دیگر تارکینِ وطن کی حوصلہ افزائی ہوگی۔
لیونارڈ ڈوائل کا کہنا تھا کہ ’ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر امدادی جہازوں کا بہتر بیڑا یا خصوصی ٹاسک فورس ہوتی تو اس سانحے سے بچا جا سکتا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ جب عالمی برادری قزاقوں کے خلاف متحد ہو کر سمندروں کی نگرانی کر سکتی ہے تو انھیں ان پانچ ہزار جانیں بچانے سے کون روک رہا ہے جو گذشتہ ایک سال میں ایسے واقعات میں ضائع ہو چکی ہیں۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2014 میں یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرۂ روم کو پار کرتے ہوئے 3500 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
خیال رہے کہ بدھ کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے بحیرۂ روم میں کشتیوں کے حادثے میں 300 افراد کی ہلاکت کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔
آئی او ایم کا کہنا ہے کہ اس تازہ ترین سانحے میں ملوث دونوں کشتیاں سنیچر کو لیبیا سے چلی تھیں اور ان کی منزل یورپ تھی۔
اٹلی نے کچھ عرصہ قبل تارکینِ وطن کے بچاؤ کے لیے بحیرۂ روم میں جاری ’مئیر ناسٹروم‘ نامی سرچ اور ریسکیو آپریشن ختم کر دیا تھا۔
مئیر ناسٹروم کو بند کرنے کے فیصلے کے بعد سے ناقدین مسلسل یہ کہتے رہے ہیں کہ بحیرۂ روم میں حادثوں کی صورت میں زیادہ جانی نقصان ہوگا۔
اٹلی میں بی بی سی کے نامہ نگار میتھیو پرائس کا کہنا ہے کہ یہ اندازہ لگانا تقریباً ناممکن ہے کہ ’اگر مئیر ناسٹروم بند نہ ہوتا تو کیا اس حالیہ حادثے میں مرنے والوں کو بچا لیا جاتا؟ میں نے اطالوی بحریہ کے ساتھ ایک ہفتہ سمندر میں گزارا ہے اور میں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ انھوں نے لوگوں کو بچانے کی ہرممکن کوشش کی ہو گی۔‘
یاد رہے کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2014 میں یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرۂ روم کو پار کرتے ہوئے 3500 افراد ہلاک ہوئے تھے۔