ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے پربین الاقومی سطح پرمذمت کرتے ہوئے اسے مستردکردیا گیا ہے جب کہ دنیا بھر میں امریکا مخالف مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔حماس نے اسرائیل کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق مغربی کنارے کے شہروں میں بیت لحم، الخلیل، البیرہ،بیت ایل، رملہ اور رام اللہ میں ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے جنہوں نے امریکا اور اسرائیل کے خلاف نعرے لگائے اور ان کے پرچم نذرآتش کیے‘ مظاہرین نے بیت الحم میں کرسمس کی لائٹیں بجھادیں۔ اس دوران قابض اسرائیلی فوج نے نہتے مظاہرین پروحشیانہ تشدد کیا ،
فائرنگ اورغزہ پر بمباری بھی کی گئی جس کے نتیجے میں 100سے زائد فلسطینی زخمی ہوگئے۔مشتعل مظاہرین نے صہیونی دفورسز پر جوابی پتھراؤ کیا ۔فلسطین میں سرگرم امدادی تنظیم ہلال احمر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ زخمیوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ لبنان اور اردن میں فلسطینی مہاجرین اور عوام سراپا احتجاج ہوگئے۔ استنبول میں لوگ گھروں سے نکل آئے اور امریکا کیخلاف مظاہرہ کیا۔ مصریوں نے بھی اس فیصلے پر شدید رنج و غم کا اظہار کیا۔تیونس میں تمام بڑی لیبر یونینز نے مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔پاکستان نے کہاہے کہ امریکی اقدام سلامتی کونسل کی قراردادوں کی صریحا خلاف ورزی ہے۔ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ پاکستانی حکومت اور عوام امریکا کے سفارتخانے کو مقبوضہ بیت المقدس منتقل کیے جانے کی مخالفت کرتے ہیں اور او آئی سی کی قراردادوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ پاکستان امریکا کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ وہ ایسے اقدام سے باز رہے۔کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے مقبوضہ بیت المقدس کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ویٹیکن میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے پوپ نے امید ظاہر کی کہ اس معاملے میں حکمت اور دانائی غالب آئے گی تاکہ پہلے سے ہی عالمی سطح پر موجود تنازعات میں نئی کشیدگی پیدا نہ ہو۔حرمین شریفین انتظامیہ کے سربراہ اور حرم مکی شریف کے امام وخطیب شیخ ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ بیت المقدس عرب اور اسلامی شہر ہے اور یہی اس کی شناخت رہے گی۔ انہوں نے حرمین شریفین کے علماء کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول اور تیسرا حرم شریف ہے۔ یہ رسول اکرمﷺ کی جائے اسراء بھی ہے۔ مسئلہ فلسطین اور بیت المقدس کے حوالے سے سعودی عرب کا اصولی موقف ہے۔ بانی مملکت شاہ عبد العزیز سے لے کر خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز تک مملکت کے تمام فرمانرواوں نے قضیہ قدس کی حمایت کی ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا آج ہنگامی اجلاس ہوگا۔امریکی صدر کے متنازع اعلان کی مخالفت کرتے ہوئے سلامتی کونسل کے 8ممالک فرانس، برطانیہ ،بولیویا، مصر، اٹلی، سینیگال، سویڈن اور یوراگوائے نے فوری اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔توقع ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اس سے خطاب کریں گے۔پاکستانی مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی اس اجلاس میں تمام رکن ممالک کو پاکستان کے موقف سے آگاہ کرنے کے لیے رابطے کریں گی۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس کے مستقبل کا فیصلہ فلسطین اوراسرائیل کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعے ہونا چاہیے، وہ آپس میں مل بیٹھیں اور تصفیہ طلب مسائل کے بارے میں کوئی فیصلہ کریں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ 2 ریاستی حل کے سواکوئی حل ممکن نہیں،کسی پلان بی کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، تنازع کے پرامن حل پر قائل کرنے کے لیے تمام ممکنہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔سعودی عرب کی جانب سے جاری کیے گئے شاہی بیان میں کہا گیا کہ صدر ٹرمپ کا یہ فیصلہ بلاجواز اور غیر ذمے دارانہ ہے اور یہ فلسطینی عوام کے حقوق کے منافی ہے۔سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے خبردار کیا ہے کہ ایسے ناجائز اقدام کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ ایران نے بھی صدر ٹرمپ کے اعلان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس فیصلے سے اسرائیل کے خلاف ایک اور انتفادہ شروع ہو سکتی ہے۔ یہ اشتعال انگیز اور غیر دانشمندانہ فیصلہ سخت اور پرتشدد ردعمل کا باعث بن سکتا ہے۔ترکی نے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم اس غیر ذمے دار بیان کی مذمت کرتے ہیں۔ یہ فیصلہ بین الااقوامی قوانین اور اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے خلاف ہے۔آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے مسلمان ملک انڈونیشیا کے صدر جوکو ویدودو نے ملکی ٹیلی وڑن پر ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کی ہے اور اپنی وزارت خارجہ سے کہا کہ امریکی سفیر کو طلب کرکے انڈونیشی حکومت کے احساسات سے آگاہ کیا جائے۔ملائیشیا کے صدر نجیب رزاق نے مسلم ممالک سے مطالبہ کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کیخلاف ڈٹ جائیں۔ قطر نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ امریکی سفارتخانے کی منتقلی کا فیصلہ خطرناک اور امن پسندوں کے لیے سزائے موت ہے۔حال ہی میں سعودی عرب میں اپنے استعفے کا اعلان کرنے کے بعد رواں ہفتے اسے واپس لینے والے لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری نے کہا کہ ہمارا ملک بھرپور طریقے سے فلسطینیوں کے ساتھ اپنی حمایت کا اعلان کرتا ہے اور ان کا علیحدہ ملک جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو، قائم کرنے کے مطالبے کا ساتھ دیتا ہے۔انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ امریکی فیصلے سے خطے میں خطرات میں اضافہ ہوگا۔یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا مگیرینی نے صدر ٹرمپ کے اقدام پرشدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیت المقدس کے بارے میں فریقین کی خواہشات کو پورا کیا جانا نہایت ضروری ہے اور مسئلے کو حل کرنے کے لیے بہر صورت مذاکرات کا راستہ ڈھونڈاجائے۔ برطانوی وزیرِ اعظم تھریسامے نے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کی مخالفت کی ہے ۔ان کا کہنا تھا ہم امریکا کے فیصلے سے متفق نہیں ہیں کہ وہ اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرے اور اسے اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے۔اردن نے ٹرمپ کے فیصلے کو بین الاقوامی اصول اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ادھر یورپ کے دوسرے ممالک کی طرح جرمنی سے بھی امریکی فیصلے کی مذمت سامنے آئی ہے جب جرمنی کی چانسلر انجیلا میرکل نے اپنے ترجمان کے ذریعے پیغام جاری کیا جس میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ صدر ٹرمپ کے فیصلے کی قطعی حمایت نہیں کرتیں۔انہوں نے مزید کہا کہ یروشلم کے رتبے کے بارے میں فیصلہ صرف 2 ریاستوں پر مبنی حل کے تحت ہو سکتا ہے۔روس کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کے فیصلے سے عالمی برادری 2حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اپنا سفارتخانہ تل ابیب میں ہی رکھنے کا اعلان کیا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ کینیڈا کا سفارتخانہ تل ابیب سے منتقل نہیں کر رہے جبکہ کینیڈین وزارت خارجہ نے کہا کہ یروشلم کا فیصلہ اسرائیل، فلسطین تنازع کے حل پر ہی انحصار کرتا ہے، کینیڈا 2 ریاستی حل کے موقف پر قائم ہے۔دوسری جانب بھارت نے اس معاملے پر پراسرارخاموشی اختیار کررکھی ہے اور امریکی صدر کے فیصلے پر واضح ردعمل ظاہر کرنے سے گریز کیا ہے۔ترجمان بھارتی وزارت خارجہ نے محتاط رویہ اپناتے ہوئے کہا کہ فلسطین پر بھارت کا آزادانہ موقف برقرار ہے، فلسطین سے متعلق موقف بھارتی مفادات کے مطابق ہے۔بھارتی موقف کسی تیسرے ملک کے مفاد کے تحت نہیں، اسرائیل سے تعلقات مضبوط کرنے کے ساتھ بھارت روایتی طور پر فلسطین تحریک کی حمایت کرتا رہا ہے۔