بیت المقدس۔اسرائیلی حکومت نے بیت المقدس کے ہزاروں فلسطینی باشندوں کی شہری شناخت ختم کرنے کے لیے “بائیومیٹرک” کارڈز کے نام سے نئے اسمارٹ کارڈز متعارف کرانے کی سازش شروع کی ہے۔ فلسطینیوں کے پاس موجود ان کے شناختی کارڈز کے متبادل اسمارٹ کارڈز صرف یہودیوں کو دیے جا رہے ہیں اور نئے کارڈز کے حاملین ہی کو بیت المقدس کا شہری تصور کیا جائے گا۔ مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی ماہر قانون حنا عیسٰی نے بیت المقدس میں میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ “اسمارٹ کارڈ” کا مقصد القدس کے فلسطینی باشندوں کو غیر ریاستی شہری قرار دینے کی گھناؤنی سازش تیار کرنا ہے۔
کیونکہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے نئے اسمارٹ کارڈ صرف یہودیوں کو دیے جا رہے ہیں۔ فلسطینیوں کو دانستہ طورپر متبادل شناختی کارڈز سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسمارٹ کارڈز کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کارڈ شہری کی جسمانی شناخت، ساخت، فنگر پرنٹس،آ نکھوں کے اشاروں اور ڈی این اے کی خصوصیات کا حامل ہوگا۔ اس کارڈ پرشہری سے متعلق تمام ضروری کوائف درج ہوں گے جن کی مدد سے اس کی بطور القدس شہری کی شناخت کی جاسکے گی۔ کارڈز پرموجود تمام تفصیلات اسرائیلی سکیورٹی اداروں کے پاس بھی ہوں گی اور حسب ضرورت اس کی تصدیق بھی کرائی جاسکے گی۔
حنا عیسیٰ نے اسرائیلی سازش کے سنگین مضمرات کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا یہ فلسطینی شہریوں کے خلاف ایک کھلی سازش ہے، کیونکہ یہودی کالونیوں اور دیوار فاصل سے باہراس کارڈ کا اطلاق نہیں ہوگا۔ خاص طورپر بیت المقدس میں الرام اور العزریہ قصبوں علاقوں کے شہریوں کو اس کارڈز سے مستثنیٰ قرار دینا اس امر کی نشاندہی کر رہا ہے کہ صہیونی ریاست ان شہروں کے باشندوں کو وہاں سے نکالنے کی سازش تیار کر رہی ہے۔ ڈاکٹر حنا عیسیٰ “فلسطین مسیحی۔ مسلم سپریم کونسل” کے جنرل سکریٹری بھی ہیں۔
ا ن کا کہنا ہے کہ اسمارٹ کارڈز کی سازش کئی سال قبل تیار کی گئی تھی، جسے عملا نافذ کرنے کے لیے دو سال قبل اسرائیلی پارلیمنٹ نے بھی اس کی منظوری دی۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں”اسمارٹ کارڈ” کے نظریہ کو پہلے ہی مسترد کرچکی ہیں، کیونکہ اس کارڈز سے فلسطینیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔