نئی دہلی: ’’ہوسکتا ہے‘‘ کہ ہندوستان ملک بھر میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائد کردے۔ یہ بات ہندوستان کے وزیرِداخلہ راج ناتھ سنگھ نے پنڈتوں کے ایک اجتماع میں کہی تھی۔
یاد رہے کہ وزیراعظم نریندرا مسودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اس بات کا عہد کیا تھا، اور ہندو قوم پرست حکومت اس وعدے کی تکمیل کرے گی۔
مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے گائے کے تحفظ پر نئے عزم کا اظہار کیا ہے۔ہندو اکثری
ت گائے کو مقدس مان کر اس کی پوجا کرتی ہے۔ اس اقدام سے بیف کی تجارت پر ضرب پڑے گی، جس سے زیادہ تر مسلمان وابستہ ہیں۔
واضح رہے کہ ہندوستان بیف برآمد کرنے والا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے، جبکہ پانچواں بڑا بیف کا صارف ہے۔
آبادی کے لحاظ سے مہاراشٹر ہندوستان کی دوسری سب سے بڑی ریاست ہے، یہاں گائے اور بیلوں کے ذبیحے پر پابندی میں اس ماہ توسیع کی گئی ہے۔ جھاڑکنڈ اور ہریانہ جیسی دیگر ریاستیں جہاں بی جے پی کی قیادت میں حکومتیں قائم ہیں، وہاں بھی یہ پابندیاں سخت کردی گئی ہیں۔
مہاراشٹر حکومت کی جانب سے گائے بیل کے ذبیحہ پر پابندی کا قانون لاگو ہونے کے بعد اس کاروبار سے وابستہ ہزاروں لوگوں کے روزگار پر شدید ضرب پڑی ہے۔
ان لوگوں میں بیف کے پکوان بیچنے والے ہوٹل، ریستوران، چمڑے کی اشیاء کے تاجر اور ریاست کے مسلم قریشی برادری کے کروڑوں افراد بھی شامل ہیں جو بیل ذبح کرنے کا کام کرتے ہیں۔
ممبئی کے دھاراوی علاقے میں چمڑے کا کاروبار بڑے پیمانے پر ہوتا ہے۔ یہاں خالص چمڑے سے بنی بیلٹ، لیڈیز بیگ، پرس اور دیگر چیزیں ملتی ہیں۔
دھاراوی میں چمڑے کی اشیاء کا کاروبار کرنے والے ایک صاحب نے کہا ’’ہمارے مارکیٹ کی زیادہ تر چیزیں بیل کے چمڑے سے تیار ہوتی ہیں۔ اس قانون کی وجہ سے ہمارا کاروبار مکمل طور پر بند ہو جائے گا۔‘‘
یہاں چمڑے کے تاجر خوفزدہ ہیں کہ اس پابندی کی وجہ سے وہ فاقہ کشی کا شکار ہوجائیں گے۔
ممبئی بیف ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر محمد علی قریشی کے مطابق کولکتہ اور چنائے میں چمڑے کے کارخانوں کو جانوروں کی کھال ممبئی اور مہاراشٹر سے فراہم کی جاتی ہے۔
ان کے مطابق صرف ممبئی میں ہر روز بیل کے گوشت کی فروخت تقریباً 30 لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’’مجموعی طور چمڑے اور گوشت کا سالانہ 1.5 ارب روپے کا کاروبار اب تباہ ہو جائے گا۔ ہوٹلوں کے علاوہ بیل کا گوشت ممبئی کے چڑیاگھر اور سنجے گاندھی نیشنل پارک کے ٹائیگر اور لين سفاری میں جانوروں کی خوراک میں بھی دیا جاتا ہے۔‘‘
گائے بیلوں کے ذبیحہ کے قانون کے حوالے سے ممبئی کے ہوٹل اور ریستوران کے مالکان میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے، خاص طور ایسے ہوٹل اور ریستوران جو بیف سے تیار ہونے والی اشیاء کے لئے معروف ہیں۔
بیف تاجر تنظیم کے صدر محمد علی قریشی کو خدشہ ہے کہ اس قانون کی وجہ سے بھینس کے گوشت اور چکن اور مٹن کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔
مہاراشٹر میں قریشی برادری کے تقریباً ڈیڑھ کروڑ افراد بستے ہیں جو قصائی کا کام کرتے ہیں۔ یہ ان کی برادری کا آبائی پیشہ ہے، محمد علی قریشی کہتے ہیں ’’یہ معاشرے کم پڑھا لکھا ہے اور بے حد غریب طبقہ ہے۔ یہ لوگ جانور ذبح کرنے کے علاوہ کوئی بھی کام نہیں کر سکتے۔ گائے بیلوں کے ذبیحہ پر پابندی کے بعد راتوں رات ان کی روزی روٹی چھن گئی ہے۔‘‘
اس قانون پر تنقید کرنے والے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ قانون مسلمانوں، مسیحیوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ امتیازی سلوک ہے، جن کے لیے پروٹین کے حصول کا واحد ذریعہ سستا گوشت ہے۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں اس پابندی سے ہزاروں افراد کی روزگار کے خاتمے کا بھی خدشہ ہے۔