لندن ۔ :حال ہی میں سامنے آنے والی ایک ویڈیو فوٹیج میں عراق اور شام میں اسلامی حکومت کے قیام کے لیے سرگرم انتہا پسند تنظیم “داعش” کے چھ جنگجوؤں میں تین برطانوی بتائے گئے تھے۔
ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد برطانیہ کے ایک شخص احمد نے اپنے بیٹے ناصر المثنیٰ کو پہچان لیا ہے۔ وہ حیران ہے کہ اس کا بیٹا “داعش” کے ساتھ کیسے چلا گیا۔
خبر رساں ادارے”اے ایف پی” کے مطابق ویڈیو فوٹیج میں بیٹے کو دیکھ کر اس کے والد کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس کا لخت جگر بھی کسی ایسی شدت پسند جنگجو تنظیم میں شامل ہو جائے گا۔
خیال رہے کہ دو روز قبل “جہاد کے بغیر کوئی زندگی نہیں” کے عنوان سے سامنے آنے والی تیرہ منٹ کی ویڈیو فوٹیج میں ابو مثنٰی الیمنی نامی ایک لڑکا اپنا تعارف کراتے ہوئے بتاتا ہے کہ اس کا تعلق برطانیہ سے ہے۔ وہ شام اور عراق میں جہاد فی سبیل للہ کی دعوت دیتا ہے۔
اگرچہ اس ویڈیو کے حقیقی ہونے کے بارے میں شبہات بھی موجود ہیں۔ برطانوی حکام نے “داعش” اور اس جیسی دوسری تنظیموں کی ویب سائیٹس کھولنے پر بھی پابندی لگا رکھی ہے۔
ویڈیو فوٹیج میں دکھائی دینے والے چھ میں سے تین جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق برطانیہ سے ہے۔ ان میں ناصر المثنیٰ جسے عرف ابو مثنیٰ الیمنی کا نام دیا گیا ہے کا کہنا ہے کہ وہ شام اور عراق میں جہاد میں شریک ہے۔
جب اس کے والد کو علم ہوا کہ اس کا بیٹا “داعش” کے چنگل میں ہے، تو یہ خبر اس کے لیے نہایت خیران کن اور تکلیف دہ تھی۔ احمد نے خدشہ ظاہر کیا کہ جہاں اس کا بیٹا چلا گیا ہے وہاں سے اس کی زندہ سلامت واپسی کا کم ہی امکان ہے۔
برطانونی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے احمد نے کہا کہ “جب میں نے اپنے بیٹے کو داعش کی ویڈیو میں دیکھا تو میں رو دیا۔ میرا بیٹا کم گو، خاموش طبع، ذہین اور ایک اچھا طالب علم تھا۔ وہ گذشتہ برس نومبر میں گھر سے اچانک گھر سے غائب ہوا، حالانکہ ہم اس کے میڈیکل میں داخلے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس کے پیچھے چھوٹا بیٹا بھی رواں سال فروری سے غائب ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ وہ بھی شام میں لڑائی میں باغیوں کے ساتھ شامل ہے۔
برطانوی مسلمان احمد نے ایک دوسرے انٹرویو میں بتایا کہ “میرے دونوں جواں سال بیٹے حیا دار تھے۔ آپ انہیں قدامت پسند بھی کہہ سکتے ہیں۔ وہ لڑکیوں سے گفتگو نہیں کرتے تھے۔ ان کا زیادہ تر وقت کمپیوٹر کے سامنے ہی گذرتا تھا”۔
خیال رہے کہ برطانوی شہری کی “داعش” کے ساتھ وابستگی کا یہ واقعہ کسی ایک شخص تک محدود نہیں بلکہ ان دنوں برطانیہ سمیت کئی دوسرے ملکوں کے لیے “جہادی” پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ لندن حکام کا کہنا ہے کہ ان کے ملک سے 400 سے 500 شہری شام میں جنگ میں شریک ہیں۔