نئی دہلی ۔دو برس قبل دہلی میں بس میں ایک لڑکی سے ریپ کے مجرمان میں سے ایک مکیش سنگھ کے انٹرویو پر مبنی دستاویزی فلم کو بھارت میں نشر کرنے پر حکومت نے پابندی لگا دی ہے۔بدھ کو راجیہ سبھا میں اس بات پر بڑا ہنگامہ ہوا کہ فلم ساز کو مجرم سے بات کرنے کی اجازت کس طرح دی گئی۔بھارتی راجیہ سبھا کے رکن اور مشہور شاعر جاوید اختر لوگوں کی ناراضگی کو تو صحیح مانتے ہیں لیکن اس پورے معاملے میں انھیں اعتراض کسی اور بات پر ہے۔جاوید اختر نے بی بی سی کے نکھل رنجن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف تو ہم اظہار کی آزادی کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف ایسے دستاویزی فلم کو روکنے کی بات کرتے ہیں جو سچائی پر مبنی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے لگتا ہے کہ لوگوں کا غ
صہ اپنی جگہ صحیح ہے کیونکہ جو واقعہ ہوا وہ خوفناک اور دل کو ہلا دینے والا تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ غصہ کہیں غلط جگہ نکل رہا ہے۔‘جس طرح کی دلیل یہ مجرم دے رہا ہے، یہی دلیل ایسے لوگ بھی دیتے ہیں جو اپنے آپ کو سماجی مصلح سمجھتے ہیں، جو اپنے آپ کو ثقافت کا پہرے دار سمجھتے ہیں۔ وہ لوگ بھی اسی پر الزام لگاتے ہیں جس پر ظلم ہوا ہے۔ کہتے ہیں کہ خواتین کو ایسے کپڑے نہیں پہننے چاہییں، انہیں جینز نہیں پہننی چاہیے، ٹی شرٹ نہیں پہننی چاہیے۔ انہیں اس طرح سے باہر نہیں نکلنا چاہیے، رات کو باہر نہیں گھومنا چاہیے۔ تو مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی ذہنیت اور ریپ کرنے والے کی ذہنیت میں کوئی فرق نہیں ہے، اصل میں غصے کی بات یہ ہے۔جاوید اختر نے کہا کہ ’غصہ ہمیں ضرور ہونا چاہیے کہ اس طرح کا جرم ہوا تھا۔ اس بات پر غصہ ہونا چاہیے کہ وہ مجرم ابھی بھی صحیح سلامت جیل میں بیٹھے ہوئے ہیں۔‘انھوں نے یہ بھی کہا کہ غصہ اس بات پر بھی ہونا چاہیے کہ وہ شخص کس طرح بات کر رہا ہے اور کیسی باتیں کہہ رہا ہے لیکن اس آدمی کو تو اس کے کیے کی سزا ملے گی۔جاوید اختر کے مطابق اگرچہ انھوں نے یہ فلم نہیں دیکھی لیکن ’جو کچھ سنا ہے اس کے مطابق یہ شخص کہہ رہا ہے کہ لڑکی کو ایسے نہیں گھومنا چاہیے تھا یا اس نے ایسے کپڑے پہنے تھے یا پھر جو بھی اس کے وکیل نے یہ کہا کہ اگر سڑک پر گوشت پڑا ہے تو کتے تو اسے کھائیں گے ہی۔‘ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی زبان کا استعمال اشتعال انگیز ضرور ہے لیکن سوچنے والی بات یہ ہے جس طرح کی دلیل یہ مجرم دے رہا ہے، یہی دلیل ایسے لوگ بھی دیتے ہیں جو اپنے آپ کو سماجی مصلح سمجھتے ہیں، جو اپنے آپ کو ثقافت کا پہرے دار سمجھتے ہیں۔’وہ لوگ بھی اسی پر الزام لگاتے ہیں جس پر ظلم ہوا ہے۔ کہتے ہیں کہ خواتین کو ایسے کپڑے نہیں پہننے چاہییں، انہیں جینز نہیں پہننی چاہیے، ٹی شرٹ نہیں پہننی چاہیے۔ انہیں اس طرح سے باہر نہیں نکلنا چاہیے، رات کو باہر نہیں گھومنا چاہیے۔ تو مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی ذہنیت اور ریپ کرنے والے کی ذہنیت میں کوئی فرق نہیں ہے، اصل میں غصے کی بات یہ ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’مجھے اس بات پر غصہ ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ دیکھا اور سنا تم نے، یہ مجرم کیا کہہ رہا ہے۔ دراصل یہ وہی کہہ رہا ہے جو خود کو شریف کہنے والے بہت سے لوگ بھی کہتے ہیں۔ وہ لوگ دیکھیں کیونکہ ان کے لیے یہ شرم کی بات ہے۔‘ایسا نہیں ہے کہ اگر لوگ اسے دیکھیں گے تو ریپ کرنے والے کی سوچ سے متاثر ہو جائیں گے، بلکہ انہیں اس خیال سے، اس سوچ سے نفرت ہو گی کہ یہ ایک مجرم کی سوچ ہے اور ہمارے اندر اس طرح کی سوچ نہیں ہونی چاہیے۔جاوید اختر نے کہا کہ جہاں تک بات دستاویزی فلم کی ہے تو اگر یہ غیر قانونی طریقے سے بنائی گئی ہے یا اس میں قانون پر عمل نہیں کیا گیا ہے یا انٹرویو قانونی طریقے سے نہیں ہوا ہے تو ملک کا قانون توڑنا غلط بات ہے۔ان کا کہنا تھا کہ دہلی گینگ ریپ کے بعد بھارت میں جنسی زیادتی سے متعلق قانون کو سخت کیا گیا ہے لیکن اگر مناسب طریقے سے، مکمل طور اجازت کے ساتھ کام کیا گیا ہے تو اس میں کچھ خرابی نہیں ہے۔جاوید کے مطابق جہاں تک اس فلم سے سوچ بدلنے کی بات کہی جا رہی ہے تو اس سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔’ایسا نہیں ہے کہ اگر لوگ اسے دیکھیں گے تو ریپ کرنے والے کی سوچ سے متاثر ہو جائیں گے، بلکہ انہیں اس خیال سے، اس سوچ سے نفرت ہو گی کہ یہ ایک مجرم کی سوچ ہے اور ہمارے اندر اس طرح کی سوچ نہیں ہونی چاہیے۔‘