آگرہ ، 10 اپریل (یو این آئی) یہاں کی ایک مقامی عدالت نے چھ وکیلوں کی طرف سے دائر کردہ اس عرضی کو سماعت کے لئے منظور کرلیا ہے جس میں دعوی کیا گیا ہے کی تاج محل مغل بادشاہ شاہ جہاں کی بنائی ہوئی یادگار نہیں بلکہ بھگوان شیو کا مندر ہے اس لئے یہاں ہندووں کو پوجا کرنے کی اجازت دی جائے ۔ ضلع عدالت نے اس ضمن میں مرکزی حکومت، مرکزی وزارت ثقافت، داخلہ سکریٹری اور محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئ
ی) کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 6 مئی تک اس کا جواب طلب کیا ہے ۔ معاملے کی اگلی سماعت کے لئے 13 مئی کی تاریخ مقرر کی گئی ہے ۔اسی عدالت کے سول جج جیا پاٹھک نے اس سے وکیلوں کی عرضی یہ کہتے ہوئے مسترد کردی تھی کہ اگر کوئی بھی اس طرح ملکیت کا دعوی کرتے ہوئے آجائے تو یہ عوامی مفاد میں نہیں ہے ۔ عرضی گذار نے اس وقت نمائندگی کے قانون کے تحت تاج محل کی ملکیت کا معاملہ درج کرانے کی کوشش کی تھی۔بہرحال اس مرتبہ وکیلوں نے عدالت میں باضابطہ عرضی داخل کی ہے ۔
وکیل ہری شنکر جین اور ان کے ساتھیوں نے اپنی عرضی میں عدالت سے کہا ہے کہ وہ تاج محل سے تمام مسلم قبروں کو ہٹانے اور یہاں مسلمانوں کو عبادت کرنے سے روکنے کا حکم دے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ وکیلوں نے اپنے عرضی میں بھگوان آگریشور مہادیوناگ ناتھیشور وراجمان کو اس جائیداد کا مالک ہونے کا دعوی کیا ہے ۔ مسٹرجین نے ان کا دوست ہونے کا بھی دعوی کیا ہے ۔مسٹر جین جو آر ایس ایس کے کٹر حامی ہیں، نے کہا کہ یہ جائیداد کبھی بھی قبرستان نہیں رہی ہے اور نہ ہی قبرستان ہے ۔ یہاں کسی حقیقی قبر کا بھی کوئی وجود نہیں ہے اور اس جائیداد کا استعمال ہندو پوجا کے چھوڑ کر دیگر مقاصد کے لئے ہورہا ہے جو غیر قانونی ہے اور غیر آئینی ہے ۔