تاج محل کی تعمیر مغل حکمراں شہاب الدین محمد شاہ جہاں نے اپنی اہلیہ ممتاز محل کی یاد میں کرائی تھی
اک شہنشاہ نے بنوا کے حسیں تاج محل، اک مسلسل سی مصیبت تو کھڑی کردی ہے۔
ایک متنازع ہندو مورخ نے عرصہ پہلے یہ بحث شروع کی تھی اور اب اترپردیش میں بی جے پی کے صدر اسے آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فن تعمیر کا یہ نمونہ دراصل ایک قدیم مندر کا حصہ ہے جو ہندو راجہ جے سنگھ نے بنوایا تھا۔ شاید ان کا مقصد یہ
ہے کہ جس کی ملکیت ہے اسے واپس کردی جائے۔
اس سے پہلے ریاستی حکومت کے وزیر محمد اعظم خان نے مطالبہ کیا تھا کہ تاج محل سنی وقف بورڈ کے سپرد کردیا جانا چاہیے کیونکہ شاہ جہاں سنی مسلمان تھے۔ اس پر شیعہ پرسنل لا بورڈ کے سربراہ مولانا یعثوب عباس نے کہا کہ تاج محل شیعہ وقف بورڈ کوملنا چاہیے کیونکہ ممتاز محل خود شیعہ مسلمان تھیں۔
آپ شاید سوچ رہے ہوں گے کہ ان ممتاز شخصیات کے پاس یہ باتیں کرنے کے لیے وقت کہاں سے آتا ہے؟ دراصل جو تصفیہ طلب مسائل ہیں وہ سب حل ہوچکے ہیں، اور اب نہ کہیں غربت کا مسئلہ ہے نہ تعلیم کا۔ تو سوچا ہوگا کہ چلو بس یہ ایک پرانا مسئلہ باقی ہے اسے بھی نمٹا دیا جائے۔
اس کوشش میں وہ اکیلے نہیں ہیں۔ وزیر خارجہ سشما سوارج کو لیجیے، وہی سشما سوارج جو کبھی دمھمکی دیا کرتی تھیں کہ سونیا گاندھی اگر وزیر اعظم بن گئیں تو وہ سر منڈوا دیں گی۔ اب وہ چاہتی ہیں کہ ہندوؤں کی مذہبی کتاب گیتا کو قومی کتاب بنا دیا جانا چاہیے۔
گیتا ہندوؤں کی مقدس کتاب ہے
یہ بھی ٹھیک ہے، جب قومی ترانہ ہے، قومی کھیل ہے، قومی پرندہ ہے تو قومی کتاب بھی ہونی چاہیے۔ آپ شاید سوچیں گے کہ اس تجویز پر تو ایک نیا تنازع ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر تنازعے نہیں ہوں گے تو حکومت حل کیا کرےگی؟
انسانی وسائل کی وزیر سمرتی ایرانی کو لیجیے، انھوں نےحکم دیا ہےکہ ملک کے سرکاری سکولوں میں تیسری زبان کے طور پر جرمن کی جگہ سنسکرت پڑھائی جانا چاہیے۔ اور جب سپریم کورٹ نے مشورہ دیا کہ بیچ سال میں شروع کرنے کے بجائے آئندہ سال تک یہ فیصلہ موخر کردیا جائے تو حکومت نے اس کا بھی حل تلاش کرلیا۔
اب اس کا کہنا ہے کہ سنسکرٹ تو فوراً ہی پڑھائی جائے گی، ہاں اتنا ضرورر کرسکتے ہیں کہ بچوں کو امتحان نہ دینا پڑے۔ یہ بھی ٹھیک ہی ہے، بچوں کو کیا معلوم کہ ان کے لیے کیا بہتر ہے، یہ فیصلے کرنے کے لیے حکومتیں بنائی جاتی ہیں، اور موثر فیصلہ کن حکومتیں کبھی وقت ضائع نہیں کیا کرتیں۔
بھارت میں علم نجوم پر بہت سے افراد بہت بھروسہ کرتے ہیں
یا پھر بی جے پی کے لیڈر اور اتراکھنڈ کے سابق وزیر اعلی رمیش پوکھریال نشانک کو لیجیے، پارلیمان میں انھوں نے کہا کہ علم نجوم سب سے بڑی سائنس ہے، جس کے سامنے کوئی دوسری سائسن نہیں ٹکتی۔ ہندوستان نے لاکھوں سال پہلے جوہری آزمائشی دھماکہ کیا تھا، اور قدیم ہندوستان میں ٹرانسپلانٹ کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی۔ جلدی ہی وہ یہ مطالبہ کرسکتے ہیں کہ علم نجوم کو قومی سائنس کا درجہ دیا جائے۔۔۔اور اس پر تو کوئی تنازع بھی نہیں ہوناچاہیے کیونکہ ملک میں بڑی تعداد میں سیاستدان نجومیوں کے مشورے کے بغیر گھر سے باہر قدم بھی نہیں رکھتے۔
لیکن سب سے بڑا کارنامہ وفاقی وزیر سادھوی نرنجن جیوتی نے انجام دیا ہے۔ پارلیمانی انتخابات میں نریندر مودی نے الیکشن کو امریکہ کے صدارتی انتخاب کی شکل دے دی تھی، اب سادھوی نے ملک کی سیاست کو دو پارٹی نظام میں تبدیل کرنے کی بنیاد رکھ دی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ سیاست میں ایک طرف رام زادے ہیں اور دوسری طرف۔۔۔؟ دوسری طرف اسی سے ملتے جلتے نام کی ایک اور پارٹی جس میں باقی ہندوستانی شامل ہیں۔ حزب اختلاف کی پارٹیاں شاید اسی لیے پارلیمان میں ہنگامہ کر رہی ہیں، وہ ابھی سادھوی کے تعین کردہ زمروں میں خود کو تقسیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔