سید نجیب الحسن زیدی
تاریخ انسانیت کی جب سے ابتداءہوئی ہے مختلف حوادث و واقعات اس کرہ ¿ خاکی پر رونما ہوتے رہے ہیں لیکن اس ارض خاکی پر رونما ہونے والے ہر حادثے اور واقعے کے الگ الگ محرکات ہوتے ہیں ، جن کی وجہ سے اس واقعہ کی تہہ تک پہونچا جاتا ہے اور انہیں محرکات کی شناسائی کے بعد کسی بھی حادثہ کا تجزیہ بآسانی کیا جا سکتا ہے ۔
لیکن کچھ وا قعات ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے محرکات کی بنا پر انسان کءلئے ایک مخیر العقول حیثیت اختیار کر لیتے ہیں اور ان کی خصو صیت یہ ہوتی ہے کہ جس قدر انسان ان واقعات کے عوامل اور محرکات کا تجزیہ کرتا ہے ، اتنا ہی تاریخ اسے اپنے ساتھ ماضی کی طرف کھینچتی چلی جاتی ہے اور چونکہ ان واقعات کی تاثیر بہت دیر پا ہو تی ہے ۔ اور اس کے اثرات جلد ختم نہیں ہوتے لہذا آنے والی نسلوں کے لئے ایک پیغام درس بن جاتے ہیں ۔ جہاں ان کے اثرات کو دیکھتے ہوئے ان واقعات کی مو شکافی ایک ضروری امر بن جاتی ہے وہیں ایک عام انسان آسانی کے ساتھ ان واقعات کے حقیقی اثرات کو بیان کرنے سے عاجز رہتاہے ۔ ایسے کچھ واقعات میں سے ایک واقعہ ، واقعہ کربلا ہے۔ کربلا کیا ہے ؟ کربلا کیوں رونما ہوئی ؟ ان سوالوں کا جوان ذرا ٓسانی کے ساتھ بیان کر نا مشکل ہو جاتا ہے ۔ایسی صور حال میں اگر ہم چاہیں واقعہ کربلا کے ان اثرات کا جائزہ لیں جو کہ تاریخ پر رونما ہوئے تو یہ امر ایک تحقیقی کاوش کا مطالبہ کرتا ہے اس لئے کہ موجو دہ دور میں تاریخ کو لیکر تین طرح کے نظریا ت پائے جاتے ہیں ۔
(۱) ایک نظریہ یہ ہے کہ تاریخ عقلی اور منطقی تحلیل سے کوئی فائدہ نہیں ہے اس نظریہ کے ماننے والے تاریخ کو بہت ہی سادے انداز میں دیکھتے ہیں اور اس کے عقلی اور منطقی جائزے کو وقت کی بربادی سمجھتے ہیں اور تاریخ کو گزشتہ سے تعبیر کرتے ہوئے تاریخی عوامل اور محرکات سے سروکار نہ رکھنا ہی اپنے حق میں بہتر سمجھتے ہیں ۔
۲) بعض افراد ” جبر تاریخ “ کے نظریہ کو اپناتے ہوئے تاریخ کے سامنے اپنے آپ کو بالکل بے بس اور مجبور سمجھتے ہیں ۔
۳) جہاں تاریخ کو صرف کہانی قصوں میں محدود سمجھنے والے اور اس کی عقلی و منطقی تحلیل کو بے سمجھنے والے افراد اور جبر تاریخ کا طرز تفکر رکھنے والے موجود ہیں ، وہیں کچھ یسے افراد بھی ہیں جو تاریخ کو اپنے لئے ایک عبرت کے طور پردیکھتے ہیں اور تاریخ سے سبق حاصل کرنا اپنا اولین فریضہ سمجھتے ہیں چنانچہ امام خمینی فرماتے ہیں : تاریخ ہمارے لئے ایک درس عبرت ہے لہذا ان تین طرح کے نظریات رکھنے والے افرادکے سامنے تار یخ کی حقیقت کو پیش کرنا اور اس کی واقعی ماہیت کو بیان کرتے ہوئے اس پر قلم فرسائی کرنا اور اس پر رونما ہونے والے اثرات کو بیان کرنا ایک توانا اور تحقیقی قلم کا طالب ہے ، امید ہے کہ علماءاور قوم کے دانشور حضرات اس سلسلہ میںبہتر رہنمائی کریں گے ۔
تاریخ کر بلا کا سب سے اہم اثر
کربلا میں جو کچھ ہوا وہ صدیوں بعد بھی تاریخ کے ذریعے ہم تک پہونچ کر ہمارے لئے مشعل راہ بنا ہو ا ہے ۔ اگر اسی امر کو تاریخ پر کربلا کا سب سے بڑا اثر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔ اس لئے کہ جب تاریخ کو منحرف کیا جارہا تھا اور ضمیر فروش مورّ خوں کے ذریعے تاریخ اسلام میںلات و عزی کے افسانے گڑھ گڑھ کر انہیں تاریخ اسلام کا جز بنایا جا رہا تھا ۔ زہریلے قلموں کے ذریعے جب سنت نبوی کو پامال کرتے ہوئے نئے نئے من چاہے دستورات کو نبی کی طرف سے منسوب کرکے معاذ اللہ ” سنت حسنہ “ کی بنیاد ڈالی جارہی تھی۔ جب دین خدا کامذاق اڑانا ہی محا فظ دین کا لقب حاصل کرنے کے لئے کافی تھا ، اس وقت جبکہ ہر شئے کے اندر تبدیلی ہو رہی تھی ۔ کربلا افق عالم پر رونماہوتی ہے اور پھر جو کچھ بھی ۱۶ ھ کے پہلے اور بعد ہوا سب کو اپنے خون کی روشنائی لکھ کر ہم تک پہنچا دیتی ہے یہ کربلا کا تاریخ پر سب سے بڑا اور اہم اثر نہیں تو پھر کیا ہے ؟
جب زر خرید مورّ خوں کے قلم حکام کے لبوں کی ایک جنبش کے محتاج تھے اس وقت کربلا نے کس طرح ہم سے وہ سب کچھ بیان کر دیا جو بعد کربلا رونما ہوا َ ؟ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے !
سوچیں اور غور کریں !
زاویہ ¿ نگاہ بدل کر تو دیکھیں ! کربلا کو اپنی نظروں کے سامنے سے تھوڑی دیر کے لئے ہٹا لیں اور پھر سوچیں کہ بنو امیہ جو کچھ کر رہے تھے کیا اگر کربلا نہ ہوتی تو ان کی کالی کرتو تیں اسی طرح ہم تاریخ بالکل امانت داری کے ساتھ پہنچا دیتی ؟
کیا ہم کربلا کے بغیر سمجھ سکتے تھے کہ یزید کا کردار کیا تھا ؟ کیاہم یہ جان سکتے تھے کہ معا ویہ کے ذہن میں کیا خیالات پروان چڑھ رہے تھے ؟
کیا ابو سفیان کی شاطرانہ چالوں سے پردہ اٹھ سکتا تھا؟ حتی بعد وفات رسول سقیفہ میں جو کچھ ہوا ہمیں اس کا صحیح علم ہو سکتا تھا ؟ نہیں ! ہرگز نہیں!
اس لئے کہ جب پوری تاریخ بدل دی جاتی ، جب تاریخ کا چہرہ ہی مسخ کردیا جاتا تو اب کسی کے ذہن میں سوال پیدا نہ ہوتا کہ فلاں غلط کام کیوں ہوا ؟ لیکن یہ کربلا ہے جو تاریخ پر کچھ اس طرح اثر انداز ہوئی کہ تاریخ کو کربلا کے سامنے مجبور ہوکر یزید کے ظلم اور امام حسین ؑ کی مظلومیت کا اعلان کرنا پڑا اور جب یزید ظالم ہو گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھی ظالم اس مقام تک لیکر آیا جہاں آکر وہ قدرت کے نشے میں اتنا مغرور ہو گیا کہ اس نے عالم انسانیت کا سر اپنی کالی کرتوتوں سے جھکا دیا ۔ اب یزید کو تحت خلافت پر بٹھا نے والا بھی مجرم ہے اورکربلا میں بہنے والے خون نا حق کا اتنا ہی ذمہ دار ہے جتنا یزید ! تو جب یزید بھی مجرم ، یزید کو خلافت کے منصب تک پہونچانے والے ہاتھ بھی قتل حسینؑ میں شریک پھر کیا جب بات یہاں تک پہونچ گئی تو اب زبانوںمیں خوف ہراس کے جو تالے پڑے ہوئے تھے ان میں عزم و ہمت کی کنجی لگی تو سب کچھ کھل کر سامنے آگیا ، دودھ کا دودھ ، پانی کا پانی سب کچھ واضح ہو گیا ۔
یزید کو خلافت کے منصب تک پہنچانے والے ہاتھ تاریخ کے جھروکوں میں نظر آنے لگے اور کربلا نے ملوکیت اور امامت کے فرق کو اتنا واضح کر دیا کہ ہر انسان جو کربلا کے تناظر میں تاریخ اسلام کا مطالعہ کرے گا آسانی کے ساتھ اس نتیجے پر پہونچ سکتا ہے کہ جو کچھ بھی بلائیں اسلام پر نازل ہوئیں چاہے وہ کربلا میں ہوں یا پھر کربلا کے بعد ، سب کچھ اس ملوکیت کی طلب کردہ ہیں اور جتنی بھی قربانیاں راہ اسلام میں اعتلائے پرچم توحید کے لئے انجام پائیں وہ امامت کی قربانیاں ہیں یا پھران کا سر چشمہ مکتب امامت ہے ۔
آج اگر یزید پر لعنت بھیجی جارہی ہے ، حسین کی صداقت کا کلمہ پڑھا جا رہا ہے تو یہ صرف اور صرف نتیجہ ہے کربلا کا ۔ اگر ہمیں ان آثار کو دیکھنا ہے جو واقعہ کربلا کے بعد مرتب ہوئے تو پھر تاریخ کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنا ہو گا تاکہ تاریخ کے مختلف کرداروں کو تلاش کرنے کے بعد ان کے اوپر پڑنے والے کربلا کے اثرات کا جائزہ لیا جا سکے ۔
بنی امیہ کی حقیقت کا آشکار ہونا ، آئینہ تاریخ میں جو غبار بنی امیہ نے اپنی گندی سیاست کے ذریعہ ڈالا ہوا تھا کربلا میںبہنے والے خون ناحق نے اسے کچھ اس انداز سے صاف کردیا کہ تاریخ کا آئینہ اتنا وا ضح اور شفاف ہوگیا کہ اس میں ہر چیز دیکھی جا سکتی ہے ۔ اور ہر انسان اس کو دیکھ کرحق و باطل کے دمیان فرق محسوس کر سکتا ہے
چند تاریخی حقا ئق ملا حظہ ہوں :
٭ معاویہ اہل کوفہ کو خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے : یا اھل الکوفہ ! اترانی قا تلتکم علی الصلاة والزکدة و الحج؟ وقد علمت انکم تصلوّن و تذ کّون وتحجّون ولکنّنی قاتلتکم لامّر علیکم
اہل کوفہ ! کیاتم یہ سمجھتے ہوکہ میں نماز ، زکات یاحج کی بنا پر قتال کر رہا ہوں؟ میں یہ جانتا ہوں کہ تم نماز بھی پڑھتے ہو،
ذکوٰةبھی دیتے ہو اور حج بھی کرتے ہو ، میں تو صرف اس لئے تم قتال کر رہا ہوں کہ تم پر حکومت کرسکوں ۲
µ µ٭ ابو سفیان بعثت اور معاد کا مذا ق اڑاتے ہوئے کہتا ہے مامن عذاب ولا حساب ولا جنة ولانا بعث ولا قیامة۳ جناب حمزہ کی قبر پر پیر مار کر جو نازیبا الفاظ ابو سفیان نے ادا کئے وہ آج بھی بنی امیہ کا حقیقی چہرہ کو آشنا کر ا رہے
ہیں، اے ابو عمارہ ! جس حکومت کو تم نے تلوار کے بل بوتے پر حا صل کیا تھا دیکھو آج میرے غلاموں کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہوئی ہے ۴
٭ عبد اللہ ابن حنظہ ے نقل ہے : خدا کی قسم ہم نے کبھی یزید سے ملاقات نہ کی مگر ہمیں اس بات کاخوف رہتا تھا کہ آسمان سے کوئی پتھر ہمارے اوپر گرے اور ہمیں ہلاک کردے اس یزید وہ شخص ہے جو اپنی ماں ، بہن اور پھوپھی کے کے ساتھ زناکرتا تھا ، اور شراب پیتا تھا اور نماز نہیں پڑھتا تھا ۵
٭ ایک دن یزید شراب پینے میں مشغول تھا کہ اذان کی آواز سنائی دی کسی نے کہا یزید نماز کا وقت ہے جواب دیتا ہے شراب نماز سے بہتر ہے ۶
٭ یزید کے پاس ایک بندر تھا ، جس کا نام ابو قبیس تھا ، یزید اس کو ریشمی لباس پہناتا اور سونے چاندی کے ہار اس کے گلے میں ڈالتا تھا اور اس کو دربار میں اپنے ساتھ لاتا ، تاکہ اس ملاقات کرنے والا اس کے بندر سے مصا فحہ کرے ۷
٭ یزید ایک عیاش انسان تھا جو شکاری کتوں اور بندوں کے ساتھ اپنا وقت گزارتا اور شراب پیتا تھا ۸
یہ چند ایسے تاریخی شواہد ہیں جو ہم نے بصورت نمونہ مختصر طور پر آپ کے سامنے پیش کیے ورنہ بنی امیہ کی کرتوتوں کے لئے ملا حظہ ہو ( الثالب مثالب بنو امیہ ) تاکہ ہر ائیک یہ اندازہ لگا سکے کہ تاریخ پر کربلا کا کیا اثر رہا اور یہ اثر کچھ کم نہیں کہ آج بعد کربلا تاریخ میں بنی امیہ کے تمام کے تمام حالات زندگی آسانی سے دستیاب ہیں ۔ وہ کیا تھے ؟ انہوں نے کیا کیا گل کھلائے َ تاریخ ہمیں سب کچھ بتادیگی لیکن اگر واقعہ ¿ کربلا نہ ہوتا تب یہ چیز یں ہم تک نہیں پہونچ سکتی تھیں۔
حا دثہ ¿ کربلا نے بنی امیہ کی حکومت کی چولیں ہلاکر رکھ دیں ، ورنہ اگر یزید کی حاکمیت کو قبول کر لیا جاتا تو نہ بعد کربلا جو انقلاب رونما ہوئے وہ ہی معرض وجود میں آتے اور نہ ہی ہمیں بنی امیہ کے منفی کرداروں سے آشنائی ہوتی ، اس لئے اگر یہ کہا جائے کہ تاریخ مرتب ہوتی وہ بنی امیہ کے اشاروں پر مرتب ہوتی اور عجب نہیں اس وقت کا ماحول دیکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ حلال محمدی حرام ہو جاتا تو بے جا نہیں ہے ۔ اس لئے کہ جب ہر ایک ذہن میں یہ بات بیٹھ جاتی کہ جو خلیفہ ¿ وقت کہے وہی شریعت ہے تو پھر کیسا حلال اور کیسا حرام ؟ جو بھی حاکم کہے گا وہی حلال ہوگا اور جو حاکم کہے گا وہی حرام ۔
چنانچہ جب ہم تاریخ کے صفحات کی ورق گردانی کرتے ہیں تو ہمیں بنی امیہ کی سیا ست کا علم ہوتا ہے کہ وہ دور کتنا عجیب رہا ہو گا جب ہر طرف پرو پگنڈوں کا بازار گرم ہے سیدھی سادی عوام کو فریب دے کر ان کے عقائد کو بدلا جا رہاہے، عقیدہ ” جبر “ کی ترویج کی جارہی ہے حاکم کی بے چوں چرا اطاعت اور اکثر یت کی پیروی جیسے عقائد کو زبر دستی منوایا جا رہا ہے ۔ یہ سب کچھ ان حالات میں ہو رہا ہے جب پورے عالم کی فضا مکدر ہے ، حق و باطل کی تشخیص ایک مسئلہ ہے ، ان حالات میں آئندہ اپنی حکومت مزید مضبوط بنانے کے لئے اور ممکنہ خطرے سے بچانے کے لئے لوگوں کو حقیقت کی راہ سے دور کرنے کا یہ انداز نرالا ہے کہ اپنے زمانے کجی موجودہ فضا کو اس قدر مسموم کردو کہ صاحب حق لعنتوں کا رواج ہو جائے اور پھر جب رواج عام ہو جائے گا تو کوئی بھی ایسے آدمی کو جس پر پورا معا شرہ آنکھ بند کرکے لعنت بھیج رہا ہے حقدار نہیں مان سکتا ۔ فضا اتنی زہریلی ہے کہ علی پر لعنتیں پڑ رہی ہیں! علی کے خلا ف جنگ کرنا لوگ اپنا فریضہ سمجھ رہے ہیں ، اس لئے کہ علی ان کے بقول نماز نہیں پڑھاکرتے تھے۹
یہ سب کچھ اس دور میں ہو رہاہے جب ابھی یزید مسند خلافت پر نہیں آیا اور پھر معا ویہ کے مرتے مرتے یہ افکار بھی
رائج ہوگئے کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ خدا کر رہا ہے ! ہم سب بے بس و ناتواں ہیں اور نوبت یہ آگئی کہ یزید کی بیعت کے سلسلے میںیہ مشہورکر دی گئی کہ ” ان امر یزید قضاءمن القضاءولیس للقضا ء الخیرة من امرہم ۰۱یزید کی بیعت کا معا ملہ قضا و قدر سے متعلق ہے اور قضا و قدر وہ مسئلہ کہ جس میں کسی کو کوئی اختیا نہیںہے ۔
جہاں یہ بات مشہور ہے وہیں یہ جانتے ہوئے کہ لوگ آسانی سے اب ہر بات مان لیں گے من گھڑت حدیثیں بیان ہونے لگیں حتی کہ کہا جانے لگا ” صل مع کل امام وجاہد مع کل امیر“اا
کربلا کا آغاز
جہاں حکومت اپنی پوری کو شش میںہے کہ اپنے تمام افعال کو شرعی رنگ دے دیا جائے ، وہیں آہستہ آہستہ تحریک کربلا کی آواز بلند ہوئی ہے کبھی در بار میں جا کر امام حسین یزید کے سوال بیعت کے جواب میںانکار کرکے یزید کی غیر شرعی حکومت کا اعلان کرتے ہیں تو کبھی بصرے کے سرداروں کو خط لکھ کر حالات سے آگاہ کرتے ہیں ۔ آپ دربار میںیزید کی بیعت سے انکار کرتے ہو ئے فر ماتے ہیں : اِنّا لللہ وَ اِنّا الیہرا جعون وعلی الا سلام السلام اذا بلیت الامة برا ع مثل یزید“۲ا
ایک دوسری جگہ یزید کی حقیقت کا اعلان کرتے ہوئے فرما تے ہیں:……” و یزید رجل شارب الخمر قا تل النفس