مزید سکیورٹی کے لیے حکومت آسام پولیس کو مرکزی سکیورٹی فورس کی مشترکہ نفری روانہ کر رہی ہے. بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں پولیس کا کہنا ہے کہ ایک جنگل کو بچانے کی کوشش میں کم از کم دس افراد مارے گئے، جبکہ ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے پولیس ایس پی سنجکتا پراشر نے کہا کہ فائرنگ میں بہت سے دوسرے افراد کو گولی لگی ہے جبکہ دس افراد لاپتہ ہیں۔
آسام کے سینیئر پولیس اہل کار نے کہا کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب ریاست کے سونت پور ضلعے کے چول دھوا علاقے میں ایک جلسے پر پڑوسی ریاست اروناچل پردیش کے چند شر پسند عناصر نے گولیاں برسانی شروع کر دیں۔ ان کے پاس شکار کرنے والی بندوقیں تھیں۔
مقامی افراد ان ہلاکتوں کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں اور جمعرات کو انھوں نے آسام اور اروناچل پردیش کو جوڑنے والی قومی شاہراہ این ایچ -52 کو مسدود کر دیا۔
گھنے جنگلات سے گھرے اس علاقے میں سکیورٹی میں اضافہ کیا گیا ہے اور مزید سکیورٹی کے لیے حکومت آسام پولیس کو مزید نفری روانہ کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ کمیونسٹ پارٹی کے ایم ایل گروپ نے گذشتہ دو مہینوں سے زیادہ عرصے سے وہاں دھرنا دے رکھا ہے۔ وہ یہ مظاہرہ بیہالی جنگل کے تحفظ کے لیے کر رہے ہیں۔
حکام کے مطابق ہلاک شدگان میں کم از کم تین افراد ماؤ نواز گروپ کے رکن یا حامی ہیں۔
آسام چائے کی پیداوار کے لیے دنیا بھر میں مشہور ہے
نکسلی گروہ کے ریاستی سکریٹری بیبیک داس بدھ کو فائرنگ کے وقت وہاں موجود تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کیمپ میں اس وقت تقریباً 500 افراد موجود تھے جب تقریباً 100 افراد پر مشتمل اروناچل پردیش کے ایک گروپ نے اس ریاست کی پولیس کے ساتھ فائرنگ شروع کردی۔‘
آسام کے وزیر اعلیٰ ترون گوگوئی فی الوقت دارالحکومت دہلی میں ہیں اور انھوں نے ریاست کے سینیئر پولیس حکام کو حالات پر مستقل نگرانی کا حکم دیا ہے۔
جنگلات میں غیر قانونی قبضے کا معاملہ گذشتہ چھ مہینوں سے پر تشدد ہو گیا ہے۔ رواں ماہ کے اوائل میں اس کے پیش نظر ٹھنڈا پانی کے علاقے میں سرحدی سکیورٹی بی ایس ایف کا کیمپ قائم کیا گیا ہے۔ یہ جگہ چول دھوا سے محض چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
داس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اروناچل کے مضبوط لوگوں نے آسام کے جنگلوں میں ربڑ اور چائے کے باغ لگا رکھے ہیں اور وہ غیر قانونی طور پر وہاں قبضہ کر رہے ہیں جس کے خلاف ہم لوگ جنگل کے تحفظ کے لیے مدافعت کر رہے ہیں۔‘