ماہرین کا کہنا ہے کہ مرتے ہوئے مریضوں کو درد سے نجات دلانے والی دواؤں تک رسائی میں کمی عوامی صحت کے لیے ہنگامی صورت حال اختیار کر گئی ہے۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ صرف سنہ 2012 میں ایک کروڑ 80 لاکھ افراد مرتے وقت غیر ضروری درد میں مبتلا تھے۔ یہ اموات زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں پیش آئیں۔اعدادو شمار میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ، برطانیہ، ناروے آسٹریا اور آسٹریلیا میں درد سے نمٹنے کی سہولیات بہترین ہیں جبکہ پاکستان، مصر، ایتھیوپیا، افغانستان اور موزمبیق میں اس کی صورت حال ناگفتہ بہ ہے۔ایتھیوپیا میں کینسر کے بعض مریض درد سے بچنے کے لیے ٹرک کے سامنے کود کر خودکشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔عالمی سطح پر درد کے تدارک کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے اتحاد ڈبلیو پی سی اے نے کہا ہے کہ اس مسئلے کی ایک وجہ حکومت کی جانب سے مارفین جیسی دردکش ادویہ تک رسائی حاصل نہ ہونا ہے۔گذشتہ ماہ 200 ممالک سے صحت کے شعبے میں کام کرنے والے حکام نے اقوام متحدہ کے تحت ملاقات کی اور درد میں تخفیف کو اپنی ترجیحات میں رکھنے کا عہد کیا۔
یاد رہے کہ پہلی بار عالمی سطح پر اس قسم کی کوئی کوشش ہوئی ہے۔افریقی ملک ?وگینڈا میں درد
میں تخفیف کے لیے ایک مہم شروع کی گئی ہے ۔یوگینڈا کے وسطی ضلعے واکیسو کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں 48 سالہ بیٹّی نائگا ایک زرد جھونپڑی میں ایک چٹاء? پر لیٹی ہوئی ہیں۔ دو سال قبل انھیں چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔ علاج کرانے کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں تھے اور رسولی کا سائز بڑھ کر فٹ بال جتنا ہو گیا تھا۔انھوں نے بتایا کہ ’پہلے درد بہت تھا۔ اتنا کہ ہم سو نہیں پاتے تھے۔ کچھ کر نہیں پاتے تھے۔ جان لیوا درد تھا۔ دل کہتا تھا کہ موت ہی آجاتی تو بہتر تھا۔‘وہ اسی درد میں ایک سال تک بے یار و مددگار مبتلا رہیں، حتیٰ کہ ان کے گھر والوں نے بھی انھیں چھوڑ دیا۔ اسی دوران ایلن نام کے ایک رضاکار نے انھیں دیکھا۔مارفین سستی ہوتی ہے اور یہ افغانستان میں پیدا ہونے والی خام افیون سے بنائی جاتی ہے۔ یہ عالمی سطح پر محدود طور پر دی جانے والی دوا ہے اور اس کی فراہمی کے لیے بین الاقوامی نارکوٹک بورڈ کو سالانہ آرڈر دیا جاتا ہے، لیکن بہت سے ممالک اس کا مناسب آرڈر نہیں دیتے۔ایلن یوگینڈا کے ان سینکڑوں رضاکاروں میں شامل ہیں جنھیں درد میں تخفیف کرنے والے ادارے ’ہوسپس افریقہ یوگینڈا‘ نے تربیت دے کر بیٹّی جیسے مریضوں کی تلاش کے لیے چھوڑ رکھا ہے۔اس کے بعد بیٹّی کو مفت کیموتھیراپی دی گئی اور درد کو زائل کرنے والی دوا مارفین دی گئی۔انھوں نے بتایا: ’علاج کے بعد میری زندگی بہت حد تک بدل گئی ہے۔ واؤں سے میری تکلیف میں کمی ہوئی ہے۔‘واضح رہے کہ درد کو کم کرنے کی سمت میں افریقی ممالک میں یوگینڈا نے رہنمائی کی ہے اور اس نے آسان طریقے سے دیسی انداز میں پانی اور مارفین کے سفوف ملاکر درد کی دوا تیار کی ہے۔تاہم زیادہ تر ترقی پذیر ملکوں میں اس کی فراہمی بہت محدود ہے۔
افغانستان اور لیبیا جیسے بعض ممالک میں درد رفع کرنے کے لیے کوئی دوا نہیں دی جاتی۔بی بی سی کو دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ساڑھے تین لاکھ افراد کو سنہ 2012 میں اس طرح کے علاج کی ضرورت تھی لیکن صرف 300 افراد کو ہی یہ سہولت دستیاب ہو سکی۔یوگینڈا میں درد کے علاج میں تربیت یافتہ رضاکار بھی ہیں۔ڈبلیو پی سی اے کے مطابق اتنی بڑی آبادی والے ملک میں درد کی تخفیف کے لیے صرف دو مراکز ہیں۔مطالعے میں کہا گیا ہے کہ موزمبیق میں ایک لاکھ افراد میں سے صرف 153 کو درد کی دوا مل سکی جکہ مراکش میں 80 ہزار لوگوں میں صرف 153 افراد کو ہی یہ سہولت حاصل ہوئی۔اس کے مقابلے پر برطانیہ میں جن لوگوں کو درد کی تخفیف کی دوا مطلوب تھی ان میں سے ۹۷فیصد افراد کو وہ دوا دستیاب تھی۔
مارفین سستی ہوتی ہے اور یہ افغانستان میں پیدا ہونے والی خام افیون سے بنائی جاتی ہے۔ یہ عالمی سطح پر محدود طور پر دی جانے والی دوا ہے اور اس کی فراہمی کے لیے بین الاقوامی نارکوٹک بورڈ کو سالانہ آرڈر دیاجاتا ہے۔ لیکن بہت سے ممالک اس کا مناسب آرڈر نہیں دیتے۔ڈبلیو پی سی اے کے ڈاکٹر سٹیون کونر کا کہنا ہے کہ ’اسے بہت سی وجوہات کے سبب آسانی سے دستیاب نہیں کرایا جاتا کیوں کہ یہ دوا نشہ آور ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ڈاکٹروں کے مزاج میں بھی اس کے تعلق سے تبدیلی کی ضرورت ہے اور زیادہ تر ترقی پذیر ممالک میں ڈاکٹروں کو درد کے تدارک اور دوا کے استعمال کی تربیت نہیں دی جاتی۔ بعض لوگ نشے کی لت اور دوا کے خطرناک ذیلی اثرات کی وجہ سے بھی اسے مریضوں کو نہیں دیتے۔انھوں نے کہا کہ ’آپ قانون اور ضابطے تو بدل سکتے ہیں لیکن اگر مزاج نہیں بدلتا تو کوئی فائدہ نہیں۔‘