ترکی میں خواتین کے ساتھ تشدد کے واقعات کے خلاف خواتین سراپا احتجاج ہیں
ترکی میں ہزاروں خواتین نے ایک نوجوان لڑکی کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کیا جس نے ایک بس ڈرائیور کی جانب سے ریپ کی کوشش کا مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں ڈرائیور نے انہیں قتل کر دیا۔
پولیس کو 20 سالہ اوزگیجان اسلان کی جلی ہوئی لاش میرسن شہر کے قریب دریا کے کنارے پر جمعے کے روز ملی۔
پولیس نے ایک منی بس کے ڈرائیور جو کہ اوزگیجان کے والد کے دوست تھے کو اس جرم کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔
ترک صدر اور وزیراعظم نے اسلان کے خاندان سے بات کی اور ان سے تعزیت کی۔
وزیراعظم احمد داؤد اوغلو نے خاندان سے وعدہ کیا کہ وہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو ڈھونڈ نکالیں گے اور انہیں سزا دیں گے۔
اسلان ایک نفسیات کی طالبہ تھیں اور انہیں بدھ کے روز اُن کے گھر جاتے ہوئے اغوا کیا گیا تھا جس کے بعد ڈرائیور نے ان کا ریپ کرنے کی کوشش کی جس کا انہوں نے مقابلہ مرچوں والے سپرے سے کیا مگر انہیں بعد میں چاقو کے پے در پے وار کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ ان کے سر پر ایک آہنی پائپ سے بھی وار کیا گیا۔
اس بیہمانہ قتل نے ترکی کو ہلاک کر رکھ دیا اور ہزاروں خواتین نے سینیچر کو ترکی کے بڑے شہروں انقرہ، استنبول، میرسن جو کہ اسلان کا آبائی شہر ہے میں مظاہرے کیے۔
20 سالہ اوزگیجان اسلان کو یونیورسٹی سے واپسی پر ریپ کے خلاف مزاحمت کرنے پر قتل کر دیا گیا تھا
استنبول میں خواتین انسانی حقوق کی کارکنوں نے دو علیحدہ مظاہرے کیے جن میں اس ہلاکت پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا جہاں خواتین ایک بینر کے سامنے جمع ہوئیں جس پر لکھا تھا ’بہت ہو گیا‘ ہم خواتین کے قتل کو روکیں گی۔
شام کو یہ حجوم بڑا ہوتا گیا جس میں ہزاروں خواتین شامل ہوئیں جن میں ہر عمر اور طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین شامل تھیں۔
ایک نوجوان خاتون بولے دوگان نے بتایا کہ اس قتل نے انہیں خوفزدہ کیا ہے ’میں خوفزدہ ہوں کیونکہ ایسا میرے یا میری دوست کے ساتھ ہو سکتا مگر دوسری جانب میں بہت غصے میں ہوں کہ کوئی کیسے اس طرح کر سکتا ہے۔‘
اس مظاہرے میں ایک صنفی علوم کی ماہر زینب بھی موجود تھیں جن کا خیال تھا اس قتل کی سیاسی نوعیت بھی ہے۔
خواتین نے ملک میں خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے قوانین کو مضبوط بنانے کا مطالبہ کیا
انہوں نے کہا کہ یہ ’حکومت کی جانب سے قدامت پسند اسلامی ماحول کا نتیجہ ہے جس میں مرد کہتے ہیں کہ خواتین قدامت پسند ہوں کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ اگر وہ قدامت پسند نہیں ہوں گی تو انہیں اس نوعیت کے تشدد کا سامنا کرنا ہو گا۔‘
حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی 2002 سے برسرِ اقتدار ہے جس کی جڑیں سیاسی اسلام میں ہیں۔
خواتین کے حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں گذشتہ دہائی کے دوران اضافہ ہوا ہے۔
مقامی رپورٹس کے مطابق صرف گذشتہ سال کے دوران 300 خواتین مردوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئیں اور 100 سے زیادہ کے ساتھ ریپ کیا گیا۔
اوزگیجان اسلان کے قتل کے خلاف احتجاج میں ہر طبقے کی خواتین نے حصہ لیا جو ملک کے بڑے شہروں میں ہوئے
سیودہ بیرام اوغلو جن کا تعلق خواتین کے حقوق کی تنظیم سے ہے نے خواتین کے تحفظ کے لیے نئے قوانین بنانے کا مطالبہ کیا ’مرد خواتین پر تشدد کرتے ہیں، اُن کا ریپ کرتے ہیں اور انہیں مار دیتے ہیں اور ریاست جو مردوں کی ریاست ہے انہیں تحفظ فراہم کرتی ہے ہم پارلیمان سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اس تشدد کو ختم کرے۔‘
ایسا ممکن ہے کہ اسلان کا قتل ترکی میں خواتین کے تشدد کے خلاف لڑنے والوں کو متحد کرنے میں کامیاب ہو سکے۔