گذشتہ سال تقسیم سکوائر میں واقع غازی پارک کو دوبارہ بنانے کے منصوبے کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوا تھا
ترکی کے وزیرِاعظم طیب اردگان نے نوجوان مظاہرین کو خبردار کیا ہے کہ وہ استنبول کے تقسیم سکوائر پر مظاہروں کی پہلی سالگرہ میں شریک نہ ہوں۔
طیب اردگان نے یہ تنبیہ اس وقت کی ہے جب حزبِ مخالف نے آج ملک گیر مظاہروں کا اعلان کر رکھا ہے۔
اطلاعات کے مطابق حکومت نے تقسیم سکوائر پر ہونے والے ان مظاہروں کو روکنے کے لیے ہزاروں پولیس اہل
کاروں کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
طیب اردگان نے لوگوں کو ان مظاہروں میں حصہ نہ لینے کے لیے استدعا کی ہے۔
انھوں نے کہا ’ایک سال بعد مبینہ فنکار سمیت بہت سے افراد ان مظاہروں کی کال دے رہے ہیں لیکن آپ ترک نوجوان ان کی آواز پر لبیک نہیں کہیں گے۔‘
“ایک سال بعد مبینہ فنکار سمیت بہت سے افراد مظاہروں کی کال دے رہے ہیں لیکن آپ جوان ان کی آواز پر لبیک نہیں کہیں گے۔”
طیب اردگان
واضح رہے کہ ترکی میں گذشتہ سال تقسیم سکوائر میں واقع غازی پارک کو دوبارہ بنانے کے منصوبے کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا آغاز ہوا تھا تاہم یہ مظاہرے اس وقت پرتشدد ہوگئے تھے جب پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا۔
ان مظاہروں میں متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ ہزاروں دیگر زخمی ہو گئے تھے۔
حریت اخبار کے مطابق غازی پارک احتجاجی مظاہروں کی روح رواں تنظیم تقسیم اتحاد نے سنیچر کو ایک سال پورے ہونے پر ملک گیر سطح پر ریلیاں منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
انقرہ، ازمر اور انتکیا شہروں کے ساتھ ساتھ ترکی کے دیگر شہروں میں بھی مظاہروں کی امید کی جا رہی ہے۔
اطلاعات کے مطابق دارالحکومت میں سکیورٹی کے سخت انتظام کیے جائيں گے جب کہ تقسیم سکوائر پر کسی قسم کے اجتماع کی اجازت نہیں ہوگی۔
ترکی کے اخبار زمان کے مطابق گذشتہ سال کی طرح اس بار تقسیم سکوائر کو پولیس کے گھیرے میں نہیں لیا جائے گا۔
طیب اردگان نے یہ اپیل اس وقت کی ہے جب حزبِ مخالف نے آج ملک گیر مظاہروں کا اعلان کر رکھا ہے
ترکی میں حالیہ مہینوں کے دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں دو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ افراد گذشتہ ہفتے کان کنی کے واقعے میں 301 افراد کی ہلاکت پر مظاہرہ کر رہے تھے۔
لوگوں میں حالیہ دنوں اس وقت بھی غصہ نظر آیا جب گذشتہ سال آنسوگیس سے متاثر ایک 15 سالہ بچے کی موت ہو گئی۔
یاد رہے کہ مئی سنہ 2013 میں مظاہرین نے تقسیم سکوائر اور غازی پارک پر قبضہ کرکے حکومت کو حیران کر دیا تھا۔
حالات کو قابو پانے کے لیے پولیس نے دو ہفتے بعد مظاہرین سے زبردستی وہ جگہ خالی کرائی تھی جس کے بعد ملک کے کئی دوسرے شہروں میں مظاہرے ہوئے تھے۔
اس کے بعد سے طیب اردگان پر جابرانہ اور بدعنوان ہونے کے الزامات عائد کیے گئے یہاں تک کہ انھوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ یوٹیوب اور ٹوئٹر کو بھی بند کرنے کر دیا تھا۔