لکھنو: دنیا بھر میں شہدائے کربلا کے نام پر سب سے بڑے وقف حسین آباد اینڈایلڈائیڈ ٹرسٹ کی املاک اور اثاثوں میں خرد برد کے بڑے واقعات منظر عام پر آئے ہیں۔ اودھ کے تیسرے بادشاہ محمد علی شاہ کے دور میں وقف حسین آباد کا قیام عمل میں آیا تھا مگر جنگ آزادی جس کو انگریزوں نے غدر کا نام دیا تھا اس میں اس وقف کو خوب خوب لوٹا گیا۔یہی نہیںملک کی آزادی کے بعد سے آج تک وقف حسین آباد کو جم کر لوٹا
جا رہا ہے۔ پہلے اسکیم آف منیجمنٹ کے تحت اور اب گزشتہ پچیس ۔تیس سال سے لکھنو کے ڈسٹرک مجسٹریٹ کی نگرانی میں یہاںکے معاملات مشکوک ہیں۔حالانکہ ہائی کورٹ کی لکھنو بینچ نے یہاں کے انتظام و انصرام کےلئے سبکدوش جسٹس سید حیدر عباس رضا کو بطور ریسیور چارج نہ دئے جانے پر حکومت اور انتظامیہ کی سرزنش کی ہے مگر سرکار نے وقف پر قبضہ رکھنے کے لئے سپریم کورٹ میں اپیل کردی ہے۔ اس صورت میں وقف حسین آباد میں بد انتظامی عروج پر ہے اور ایس ڈی او کے نام پر ناصر نقوی ایک شخص ضلع انتطامیہ سے ہدایتیں لیکر جو دل چاہتا ہے اسکو انجام دے رہا ہے۔ سر دست حسین آباد کے پورے علاقے میں تزین کاری کے نام پر وقف کی آراضیات کو منشائے واقف کے خلاف حاصل کر کے اس کو سڑک چوڑی کرنے اور پارکوں کے استعمال میں لانے کا کام جنگی پیمانے پر کیا جا رہاہے۔ سرکار اور انتظامیہ کے اس قدم سے مسلمانون بالخصوص شیعہ فرقہ میں اشتعال اور رنج و غم ہے۔سابق میں بھی لکھنو ڈیولیپمنٹ اتھارٹی نے حسین ٓباد وقف کی زمینوں پر چالاکی سے قبضہ لیکر انکو پارکوں میں تبدیل کردیا تھا اور اسکے ٹکٹ سے آمدنی کویہ سرکاری ایجنسی اپنی جیب میں رکھ رہی ہے۔ لق و دق پارکوں اور باغوں والے اس وقف کے حدود اربعہ تک پوری طرح سے کسی کو نہیں معلوم ہیں۔ مقامی کچھ خانوادوں نے حسین آباد وقف کی املاک کو اپنی املاک میں خلط ملط کر کے انکو بلڈروں اور نیجی ہاتھوں فروخت بھی کردیا ہے۔ اس سلسلے میں اب جو نام ابھر کر آرہا ہے وہ ہے سماجوادی پارٹی کے ایک مقامی ایم ایل سی اور انکے بیٹے کا ہے جو وارڈ کے کارپوریٹر بھی ہیں۔مزید دلچسپ اور حیرت انگیز یہ ہے کہ مسلمانوںاور قلیتوں کا دم بھرنے والی سرکار خاموشی سے اور رات ودن اس کام کو انجام دے رہی ہے اور بڑے ٹھیکوں کو انہی لوگوں کے گرگوں کو دیا گیا ہے۔
ان ہی دونوں سیاستدانوں کی وجہ سے اکھلیش سرکار بدنام ہو رہی ہے اور اقلیتوں میں بے اعتمادی پیدا ہو ری ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یو پی کے وزیر اعلی کو سرکاری اہلکار اور انکی پارٹی کے ایسے لیڈروں نے اندھیرے میں رکھا ہے اور سیاسی مبصرین کا یہ خیال ہے کہ آئندہ ریاستی اسمبلی کے الیکشن میں پارٹی کے ان ذمہ داروں کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ گزشتہ پارلیمانی الیکشن میں بھی وقف کے معاملات پر ریاستی حکومت کی صرف زبانی جنگ نے اقلیتوں کو پارٹی سے دور کردیا تھا۔
حسین آباد وقف کے تاریخی گھنٹہ گھر کی زمین کا ایک حصہ اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سینئر نائب صدر مولانا سید کلب صادق کو یونٹی گرلس کے نام پر دی گئی زمین میں سے بھی ایک حصہ سڑک چوڑی کرنے کےلئے کاٹ دیا گیا ہے۔ جو حقائق سامنے آئے ان سے اقلیتوں کے ہوش اڑ گئے ہیں۔مثلا ©قدیم لکھنو ¿ کے ہیریٹج زون حسین آباد علاقہ کی تزئین کاری حسین آباد اینڈ ایلائڈ ٹرسٹ کی قیمت پر کی جارہی ہے تزئین کاری کے نام پر ٹرسٹ کی کروڑوںروپئے کی زمین پر بغیر معاوضہ تعمیری کام جاری ہے۔ یہی نہیں بلکہ سیاحت کو فروغ دینے کے نام پر ہو رہی تزئین کاری کےلئے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (آثار قدیمہ)کے قوانین کو بھی نظر انداز کیا جارہا ہے۔ محفوظ تاریخی عمارتوں کے آس پاس نہ صرف تحفظ بلکہ نیا تعمیری کام بھی دن رات جاری ہے۔ اس سے قبل ٹرسٹ کی آراضی پر قائم نیبو پارک کا نہ تو اب تک ٹرسٹ کو معاوضہ ملا اور نہ ہی ملکیت ٹرسٹ کی رہی۔مسلم اوقاف کے قوانین جاننے والوںکا کہنا ہے کہ وقف کی زمین پر سے سرکار قبضے ہٹوانے کے بجائے انکو برباد کر رہی ہے۔اب تک ایسی سیکڑوں وقفی سنی و شیعہ وقف بورڈ کی عمارتیں ہیں جو سرکاری قبضے میں ہیں اور ان پر تخلیہ کی کارروائی کے بجائے انکو خرد برد کیا گیا ہے۔
حسین آباد ہیریٹج زون کی تزئین کاری کےلئے حکومت نے حسین آباد اینڈ ایلائڈ ٹرسٹ کی رضامندی تک حاصل کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ حکومت کی تجویز پر لکھنو ¿ ترقیاتی اتھارٹی ، میونسپل کارپوریشن سمیت دیگر محکموں نے کام شروع کرادیا۔ حکومت کی تجویز پر شروع ہوئے کام پر ضلع مجسٹریٹ کی رہنما ہدایات میں چلنے والے ٹرسٹ نے بھی کسی طرح کا کوئی اعتراض نہیں کیا جبکہ تزئین کاری کےلئے ٹرسٹ کی آراضی پر کام شروع کر دیا گیا۔ ستمبر میں کام میںسست رفتاری پر وزیر اعلیٰ نے ناراضگی ظاہر کی تو کام میں تیزی آنے کے ساتھ ہی ٹرسٹ میں بھی تیزی آئی۔ ٹرسٹ نے ۱۰اکتوبر کو تجویز تیار کر کے بھیجی جس میں تزئین کاری کےلئے کام کی تفصیل، معاوضہ طلب کیا گیا تھا۔ اسی کے ساتھ تزئین کاری کے بعد ملکیت ٹرسٹ کی رہنے اور اے ایس آئی(آثار قدیمہ) کے نو آبجکشن سرٹیفکیٹ کی بات کہی گئی تھی۔ ٹرسٹ کے خصوصی ورکنگ افسر ناصر نقوی نے بتایا کہ اے ایس آئی نے این او سی نہیں دیا ہے۔لیکن وہ یہ نہیں بتا سکے کہ انہوں نے خود اس سلسلے مٰں احتجاج کیوں نہیں کیا؟
تزئین کاری کے نام پر حسین آباد اینڈ ایلائڈ ٹرسٹ کی آراضی پر۴۸۹۱ءءمیں ایل ڈی اے نے نیبو پارک بنایا تھا ٹرسٹ کے ناصر نقوی نے بتایا کہ اس وقت کمیٹی میں چیئر مین منطقائی کمشنر ہوتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ نیبو پارک کےلئے حاصل کی گئی ٹرسٹ کی زمین کی اب نہ تو ملکیت ٹرسٹ کے پاس ہے اور نہ ہی کوئی معاوضہ ملا۔ ٹرسٹ نے خط لکھ کر پارک کی آمدنی کا نصف حصہ ٹرسٹ کو دینے کےلئے کہا تھا۔ وہیں حضرت گنج واقع امام باڑہ شاہ نجف کے پیچھے بنے پشتے کی تعمیر کےلئے حاصل کی گئی ٹرسٹ کی آراضی کا معاوضہ ٹرسٹ کو ملا تھا۔
تزئین کاری کےلئے ستکھنڈا تالاب میں تیزی کے ساتھ کام کیاجارہا ہے۔ اے ایس آئی(آثار قدیمہ) کے قوانین کے مطابق محفوظ تاریخی عمارت کے سو میٹر دائرے کے اندر کوئی تعمیری کام نہیں کیاجاسکتا جبکہ ستکھنڈا تالاب محفوظ عمارت پکچر گیلری کے سو میٹر دائرے کے اندر آتا ہے۔
اس سلسلے میں وقف کی تحریک کے ذمہ داروں کی خاموشی اور حسین آباد وقف کی نا اہلی پر یو پی کے اقلیتی حلقوں میںچہ میگوئیاں تیز ہوگئی ہیں۔