اقوام متحدہ کے انسٹیٹیوٹ فار واٹر، انوائرنمنٹ اور ہیلتھ کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سِن بلوغت کو پہنچنے والی لڑکیوں کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ حفظان صحت کے انتظامات کا فقدان اور صحت سے متعلق دیگر مسائل ہوتے ہیں۔ ہندوستان کے وسیع تر دیہی علاقوں میں لڑکیوں کے لیے علیحدہ ٹائلٹس کی عدم دستیابی اْن کی تعلیمی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ سِن بلوغت میں قدم رکھنے والی بہت سی لڑکیاں خصوصی ایام کے دوران اسکول نہیں جا سکتیں کیونکہ وہاں لڑکیوں کے لیے علیحدہ ٹائلٹس کا بندوبست نہیں ہے۔ہندوستان میں ۲۰۱۱ء کی تعلیمی صورتحال سے متعلق سالانہ رپورٹ کے مطابق ٹائلٹس کا مناسب بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے ۱۲ تا۱۸ سال کی عمر کی لڑکیاں ہر ماہ کم از کم پانچ روز اسکول سے غیر حاضر رہتی ہیں۔ اس طرح ان لڑکیوں کی اسکول سے غیر حاضری کے دنوں کی سالانہ تعداد قریب ۵۰ روز بن جاتی ہے۔ہندوستانی سپریم کورٹ نے گرچہ۲۰۱۱ء میں ایک حکم جاری کیا تھا جس کے تحت ہر سرکاری اسکول میں ٹائلٹ لازمی طور پر ہونا چاہیے تاہم ۲۰۱۳ء میں ایک غیر سرکاری تنظیم سی آر وائی کی طرف سے کروائے گئے مطالعے سے پتہ چلا کہ ۱۱فیصد اسکولوں میں ٹائلٹس موجود ہی نہیں ہیں، ۱۸ فیصد اسکولوں میں لڑکیوں کے لیے علیحدہ ٹائلٹس کا بندوبست ہے جبکہ ۳۴ فیصد اسکولوں کے ٹائلٹس انتہائی بْری یا ناقابل استعمال حالت میں ہیں۔CRY East کی علاقائی ڈائریکٹر اتندرا ناتھ داس کا کہنا ہے، ’’بچوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، اسکولوں کی اپنی کوئی عمارت نہیں ہے اور ٹائلٹس کی سخت کمی پائی جاتی ہے۔ کوئی تعجب نہیں کہ ہندوستان میں۱ء۸ ملین بچے اسکولوں میں تعلیم سے محروم ہیں۔‘‘اتندرا ناتھ داس کہتی ہیں، ’’اسکول میں تعیلم حاصل کرنے والے بچوں کی ایک بڑی تعداد تعیلم کے حصول کا سلسلہ منقطع کر کے اسکول سے نکل جاتی ہے۔ ان میں اکثریت پرائمری سے اَپر پرائمری اسکول پہنچنے والی لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم انہیں اب تک ٹائلٹس کا مناسب نظام مہیا نہیں کر سکے۔‘‘ اقوام متحدہ کے انسٹیٹیوٹ فار واٹر، انوائرنمنٹ اور ہیلتھ کی ۲۰۱۰ء کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سِن بلوغت کو پہنچنے والی لڑکیوں کا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ حفظان صحت کے انتظامات کا فقدان اور صحت سے متعلق دیگر مسائل ہوتے ہیں۔ ’’یہ عوامل خواتین میں تعلیم کی کم تر شرح اور تعلیم کے پست معیار کی وجہ بنتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ حاملہ خواتین اور اْن کے بچوں کی صحت پر ان عوامل کے گہرے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‘‘ ہندوستان میں ۲۰۱۱میں ہونے والی مردم شماری کے نتائج کے مطابق ملک بھر میں حفظان صحت سے متعلق ضروریات محض ۴۹ فیصد شہریوں کو میسر ہیں جبکہ دیہی علاقوں کی صورتحال ابتر ہے۔ وہاں ان سہولیات کی فراہمی کا تناسب محض ۳۱ فیصد ہے جبکہ سماجی اور طبقاتی نظام میں بٹے ہوئے ملک ہندوستان میں نچلے درجے کی برادریوں اور قبیلوں میں یہ شرح اور بھی کم ہے۔ دلت برادری میں ۲۳ فیصد اور قبائلی گروپوں میں حفظان صحت کی یہ سہولیات صرف ۱۶ فیصد باشندوں کو میسر ہیں۔کئی ہندوستانی دیہی علاقوں میں حفظان صحت کے نظام کا فقدان وہاں ہیلتھ اور ایجوکیشن پروگراموں کے پھیلاؤ اور کامیابی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔کولکتہ میں یونیسیف کے لیے کام کرنے والے ایک ماہر ایس این دیو کے مطابق ہندوستان کے ۲۰۰۹ء کے ’تعلیم کے بنیادی حق‘ کے ایکٹ میں یہ شامل ہے کہ ہر بچے کو پرائمری اسکول کی تعلیم مکمل ہونے تک فری اور لازمی تعلیم دی جائے۔ تب اس کے علاوہ اسکولوں کے بنیادی ڈھانچے کا ایک اہم حصہ مناسب ٹائلٹس کی فراہمی بھی بتایا گیا تھا۔