:آصف جلیل احمد،
پہلے تعلیم حاصل کرنے کا مقصد اپنے علم میں اضافہ کرنا اور اس کو سمجھنے کی صلاحیتوں کو بڑھانا تھا۔ تا کہ اپنی زندگی کے مقصد سے آگاہی حاصل ہو۔ اور شعور بیدار ہو کہ ایک عام انسان اپنی زندگی کو کیسے بہتر سے بہتر بنا سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں کسی کو کسی سے پوچھنا نہیں پڑتا تھا کہ تم نے کس اسکول سے پڑھا ہے یا تمہاری کتنی تعلیم ہے۔ کیونکہ تعلیم حاصل کرنے والا شخص اپنے رہن سہن ، اپنے رکھ رکھاؤ، اپنی گفتگو، اپنی تہذیب اور اپنے لباس سے شناخت کر لیا جاتا تھا اور لوگ بغیر کہے ہی سمجھ جاتے تھے کہ کون تعلیم یافتہ ہے اور کون جاہل۔
مگر رفتہ رفتہ تعلیم ایک فیشن بن کر رہ گئی ہے۔ جس کا مقصد صرف یہ رہ گیا ہے کہ ماں باپ اس بات پر فخر کرسکیں کہ ان کے بچے مہنگے اسکول میں پڑھ رہے ہیں اور بچے اس بات پر فخر کریں کہ ان کے پاس فلاں بہترین اسکول کا سرٹیفیکٹ ہے،یہی سبب اخلاقی پستی کا ذریعہ بنتی جا رہی ہے۔جس کے نتیجے میں آج کل تعلیم کا رجحان پہلے سے کہیں زیادہ ہوجانے کے باوجود شناخت کرنا مشکل ہے کہ کون تعلیم یافتہ ہے اور کون جاہل۔کیونکہ لوگوں کے لہجے ایسے روکھے اور جذبات سے عاری ہوتے جا رہے ہیں کہ اس طرح گفتگو کرتے ہیں جیسے کسی پر احسان کررہے ہوں لہجہ ایسا ہوتا ہے کہ دوبارہ بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ لباس پہننے کا شعور ناپید ہوتا جارہا ہے۔ فیشن کے نام پر جو لباس پہنا جاتا ہے وہ چاہے ان کی شخصیت کی مناسبت سے ہو یا نہ ہو زیب تن کرلیا جاتا ہے۔ صرف یہ سوچ کر کہ یہ لباس آج کل فیشن میں ہے اور مہنگی مارکیٹ سے خریدا گیا ہے، ان سے گفتگو کرنے کا سلیقہ سب کچھ ایک خواب وخیال بن کر رہ گیا ہے۔ ماں باپ کا ،استاد کا اوربڑوں کا احترام واکرام کم ہوتا جارہا ہے، کسی کی مدد کرنے کا وقت لوگوں کے پاس نہیں ہے۔ کسی بیمار کی عیادت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اپنوں کی موت پر بھی ایک رسم کے طور پر شرکت کی جاتی ہے۔ کسی کی خوشی پر خلوص اور پیار ومحبت سے شرکت کرنا لوگ بھول گئے ہیں۔ کیوں ؟
کیونکہ ہم تعلیم حاصل کرنے کا اصل مقصد بھول گئے ہیں۔ اور تعلیم کو صرف ایک ڈگری حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ لیا ہے۔ جبکہ تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو انسان کو اس کی زندگی کا مقصد سمجھاتی ہے اوراحساس دلاتی ہے کہ یہ زندگی صرف اس کی ذات کی حد تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ کسی ایک ایسی ہستی کا غلام ہے جس کے حکم کے مطابق زندگی گزارنا اس کا فرض ہے اور اسے کوئی ایسا کام نہیں کرنا جس کی وجہ سے اس کے مالک کی حکم عدولی یا نافرمانی ہوجائے۔
تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس کی بدولت یہ شعور پیدا ہوتا ہے کہ انسان کا وجود کتنا کارآمد ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اس دنیا کی نعمتوںسے لطف اندوز ہونے کا جو طریقہ بتایا ہے وہ اس کے لئے کتنا فائدہ مند ہے۔ اور وہ کس طرح اپنی زندگی کے راستے پر چلے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچا رہے۔ اور اپنی زندگی کے خوبصورت رنگوں سے بھی محروم نہ رہے۔
مگر افسوس ہم تعلیم اور اس کی افادیت کو بھول کرایک بے مقصد بے رنگ زندگی گزار رہے ہیں۔ اور جس کا نتیجہ کیا نکل رہا ہے کہ ہم نہ تو دنیا میں خوش اور مطمئن ہیں اور نہ مرنے کے بعد والی زندگی کے متعلق کچھ سوچ رہے ہیں کیوں کہ ہم اتنے مصروف ہیں کہ کچھ سوچنے کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔
اور یہ وقت کب آئے گا۔ کبھی سوچا ہے ؟ کبھی بھی نہیں۔ کیوں کہ جس تیزی سے ہم ایک دوسرے کو دھکیل کر آگے جانے کی کوشش کررہے ہیں اس کے نتیجہ میں ایک وقت ایسا تو آسکتا ہے جو ہمیں اکیلا کردے مگر واپس لوٹ کر جانے کا وقت نہیں بچے گا۔ اور اس وقت آپ خالی ہاتھ ہونگے اورایک پچھتاوہ ہوگا کہ ساری زندگی کی بھاگ دوڑ کے باوجود نہ تو اس دنیا میں خوش اور سکون واطمینان سے رہنے کا موقعہ ملا اور نہ اس نہ ختم ہونے والی زندگی کے لئے کچھ جمع کرسکے۔ افسوس!
لٰہذا اس پچھتاوے اور افسوس کی اس گھڑی سے بچنا چاہتے ہیں تو تعلیم کی افادیت کو محسوس کریں اور تعلیم کو بطور ایک فیشن کے نہ اپنائیں بلکہ جو کچھ تعلیم سے حاصل کررہے ہیں یہ سوچ کر نہ حاصل کریں کہ امتحان دینا ہے یا ڈگری حاصل کرنی ہے یا یہ کہ جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں اس پر عمل کرنا ہمارے لئے ضروری نہیں ہے۔
تعلیم حاصل کریں تو اپنی شخصیت ، اپنے کردار، اپنی گفتگو ، اپنے لب و لہجہ ، اپنے لباس، اپنے رہن سہن اپنی قابلیت اور اپنے ہر عمل سے اس کا ثبوت دیں کہ آپ ایک تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ قوم کے فرد ہیں۔ اور آپ کی زندگی کا چھوٹا سا سہی مگر ایک اہم مقصد ہے۔ کیونکہ مقصد یا کام چھوٹا ہوسکتا ہے مگراس مقصد کے پیچھے چھپا جذبہ چھوٹا یا معمولی نہیں ہوسکتا۔۔(یو این این)