مسلم لڑکیوں کی تعلیمی ترقی کے متعلق اہم سفارشات ،
تعلیم نسواں کمیٹی (Committee on Girls Eduction) نے آج اپنی دوسری رپورٹ قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات کے چیئرمین جسٹس سہیل اعجاز صدیقی کو پیش کردی جس میں اقلیتی لڑکیوں کی تعلیمی صورت حال اور تعلیم نسواں کے فروغ میں حائل مشکلات کو دور کرنے کی غرض سے متعدد اہم سفاشارت شامل ہیں ۔ اس موقع پر تعلیمی کمیشن کے سر براہ جسٹس صدیقی نے کہا کہ کمیٹی اور اسکی سربراہ ڈاکٹر شبستان غفار نے ملک بھر میں اقلیتی طبقات بالخصوص مسلم طبقہ میں تعلیم نسواں کے فروغ میں گراں مایا خدمات انجام دیں جس کے نتیجہ میں نہ صرف مسلمانوں میں تعلیمی بیداری آئی بلکہ ا نکی شرح خواندگی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ۔
تعلیم نسواں کمیٹی کی ، جو اقلیتی تعلیمی کمیشن کا ایک شعبہ ہے ،سربراہ ڈاکٹر شبستان غفار نے بتایا کہ انکی کمیٹی نے پورے ملک کا دورہ کرکے بالخصوص آسام ، مغربی بنگال میں واقع پسماندہ مسلم آبادیوں کا جائزہ لے کر یہ رپورٹ تیار کی ہے ۔ وہ اس نتیجہ پر پہنچی ہیں کہ مسلمانوں میں بالخصوص طبقہ اناث میں تعلیم کے فروغ کے لئے سرکاری اور کمیونٹی کے سطح پر ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کئی علاقوں میں تعلیم کے تئیں زبردست بیداری پائی جاتی ہے مگر وہاں مناسب اور معقول تعلیمی سہولیات کا فقدان ہے ۔
خیال رہے اس سے قبل دسمبر 2012میں تعلیم نسواں کمیٹی نے ایک مفصل رپورٹ اسوقت کے وزیر فروغ انسانی وسائل پلم راجو کو پیش کی تھی یہ تازہ رپورٹ اس کی دوسری کڑی ہے ۔ رپورٹ اینڈ ریکمنڈیشن آن مائنارٹی گرلز ایجوکیشن (یا اقلیتی لڑکیوں کی تعلیم کے متعلق سفارشات) کے عنوان سے اس ضخیم رپورٹ میں تعلیم نسواں کے فروغ کے حوالے سے ہمہ نوعیت کی سفارشات کی گئی ہیں ۔ ان میں قابل ذکر یہ ہیں: اعلی تعلیمی اداروں اور ملازمت میں مسلم لڑکیوں کے لئے خصوصی طور پر پانچ فی صد کوٹہ مقرر کیا جائے، سیکنڈری اسکول پاس کرنے والی لڑکیوں کو کمپیوٹر کی تدریس فراہم کی جائے ، دیہی علاقوں میں کمپیوٹر سنٹر کھولے جائیں، اقلیتی ریسوریس سنٹر قائم کئے جائیں ،مائووں کی تربیت کی جائے جو بچوں کا پہلا مدرسہ ہیں، مسلم لڑکیوں کے اسکول کھولنے میں زمین فراہم کرنے رعایت دی جائے ۔ مسلم لڑکیوں میں درمیان میں ترک تعلیم یا ڈراپ آئوٹ کی شرح کو کم کرنے کے لئے اقدامات کئے جائیں، مرکزی اور ریاستی حکومتیں مسلم لڑکیوں کی تعلیم کے لئے اسکول ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو خصوصی گرانٹ فراہم کریں، شورش زدہ علاقوں جیسے کشمیر اور آسام میں تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے اصلاحات کریں نیز ایسے علاقوں میں حق تعلیم کے ایکٹ آر ٹی ای کے مناسب نفاذ کے لئے اقدامات کریں، مسلم علاقوں میں لڑکیوں کے زیادہ سے زیادہ اسکول تمام ضروری سہولیات جیسے مناسب بیت الخلاء ، کلاس روم کے ساتھ قائم کئے جائیں نیز لڑکیوں میں تعلیم سے رغبت پیدا کرنے کی غرض سے انہیں اسکالرشپ زیادہ سے زیادہ دی جائے وغیرہ۔ ٰٓ ۔
کمیٹی مرکزی حکومت کی طرف سے چلائی جارہی فلاحی اسکیموں کی پیش رفت کا بھی جائزہ لیا ۔ ڈاکٹر شبستان غفار نے بتایا کہ بیشتر فلاحی اسکیموں سے مستحق مسلمان فائدہ نہیں اٹھا پارہے ہیں ۔ اس حوالے سے بھی کمیٹی نے کئی سفارشات پیش کی ہیں ۔ ان میں اقلیتی مالیاتی کارپوریشن اور اسکل ڈیولپمنٹ کی اسکیموں سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے بیداری پروگرام چلانے ، اقلیتوں میں اقتصادی اور ترقیاتی سرگرمیوں کو فروغ دینے اور خود روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی تحریک دینا وغیرہ شامل ہیں۔ علاوہ ازیں کمیٹی نے اپنی اس رپورٹ میں قانونی پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے ۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ اقلیتی تعلیمی اداروں کو پالی ٹیکنک ، ماڈل ڈگری کالج قائم کرنے کے لئے مالی امداد مہیا کی جائے۔ کمیٹی یہ بھی کہا کہ تعلیم بالغان کی اسکیم جے ایس ایس میں مسلمانوں کو نمائندگی دی جائے نیز مسلم علاقوں میں زیادہ سے زیادہ کستوربا گاندھی ودیالیہ کھولے جائیں۔ کمیٹی نے اس اہم نکتہ کی طرف بھی توجہ دلائی کہ اقلیتوں میں کام کرنے والی رضاکار انجمنوں ( این جی اوز) کو یہ نہیں معلوم ہے کہ اقلیتی ارتکاز والے 90اضلاع میں ماڈل کالج کا قیام کیا جانا ضروری ہے لہذا ان این جی اوز کے لئے بیداری پروگرام چلائے جائیں۔
ڈاکٹر شبستان غفار نے بتایا کہ کمیٹی آن گرلز ایجوکشن نے صرف جائزہ اور سفارشات کی حد تک کام نہیں کیا ہے بلکہ ملک مختلف علاقوں بالخصوص مغربی بنگال ، آسام اور دیگر پسماندہ علاقوں میں اسکولوں کے قیام میں ہر طرح کی مدد فراہم کی ہے ۔ اس نے مختلف مقامات پر تعلیمی بیداری پروگرام منعقد کئے جس میں تعلیم کے ساتھ ساتھ خواتین کو بااختیا ر بنانے اور سرکاری فلاحی اسکیموں سے واقف کرنے پر خصوصی توجہ دی گئی نیز اساتذہ کی جدید طریقہ پر تربیت کے ورکشاپ منعقد کئے۔
جسٹس صدیقی نے جن کی ایما ء پر یہ کمیٹی قائم کی گئی ہے ، کہا کہ اگر حکومت کمیٹی کی سفارشات پر عمل کرتی ہے تو اس سے تعلیم نسواں کے فروغ میں کافی مدد ملے گی اور ملک کی ترقی رفتار میں بھی حقیقی معنوں میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی کمیشن نے اپنی دس سالہ میعاد میں اقلیتوں میں تعلیم کے فروغ اور ترقی کے لئے بہت کام کیا۔
۔