ایرانی صدر حسن روحانی نے مغرب کے ساتھ سفارتی محاذ پر کھلے پن کی حکمت عملی پرعمل پیرا ہونے کے عزم کا اظہار کیا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس کا مطلب ایران کے جوہری حقوق سے دستبردار ہونا نہیں ہے۔
انھوں نے امریکی اخبار واشنگٹن ٹائمز میں جمعہ کو شائع ہونے والے کالم میں لکھا ہے کہ ”سفارت کاری میں تعمیری اپروچ کا مطلب کسی کا اپنے حقوق سے دستبردار ہونا نہیں بلکہ اس کا مطلب مدمقابل حریف سے باہمی احترام اور برابری کی بنیاد پر معاملہ کرنا ہےتاکہ مشترکہ تحفظات کو دور کیا جاسکے اور مشترکہ مقاصد حاصل کیے جاسکیں”۔
انھوں نے لکھا کہ ”جیت پر مبنی نتائج صرف کسی کے حق ہی میں نہیں ہوتے بلکہ قابل حصول بھی ہوتے ہیں لیکن سرد جنگ کی ذہنیت سے ہرکسی کا نقصان ہوگا”۔
انھوں نے یک طرفہ اقدامات کی حکمت عملی کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے امریکا کی خارجہ پالیسی کا خاصہ قراردیا۔ انھوں نے امریکیوں کو یاد دہانی کرائی کہ افغانستان اور عراق میں ان کی فوجی مداخلت سے دنیا بھر میں افراتفری اور دہشت گردی ہی پھیلی ہے۔
ایرانی صدر نے لکھا کہ ”دوسروں کو عدم تحفظ کا شکار کرکے سکیورٹی کے حصول کی کوشش کی جا رہی ہے مگراس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ 9/11 کے ایک عشرے سے بھی زیادہ عرصے اور دو جنگوں کے بعد بھی القاعدہ اور دوسرے جنگجو گروپوں نے تباہی پھیلانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے”۔
انھوں نے واضح کیا کہ ”ان کا ملک مغرب کے ساتھ ڈائیلاگ کے ذریعے درپیش عام چیلنجز پر قابو پانے کے لیے پُرعزم ہے۔ انھوں نے امریکا اور دوسری مغربی طاقتوں کو باور کرایا کہ ایرانی عوام نے انھیں عملی طور پر معاملہ کاری کا مینڈیٹ دیا ہے اور وہ اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لیے بھی تعمیری حکمت عملی اپنائیں گے”۔
ایرانی صدر نے گذشتہ روز تہران میں حج حکام کے ایک اجلاس میں سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات پر زور دیا تھا اور اسے ایک ”دوست اور برادر” ملک قراردیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ”سعودی شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے تہنیتی خط اور میرے شکریے کے جوابی خط میں دو طرفہ تعلقات کے فروغ کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے”.
انھوں نے منگل کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری ان کی خارجہ پالیسی کے ایجنڈے کی اولین ترجیح ہے۔ انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کے معاملے پر مغربی طاقتوں کے ساتھ کھلے پن کی حکمت عملی اختیار کرنے کو تیار ہیں۔