ایک عالمی تحقیق کے نتیجے میں یہ سامنے آیا ہے کہ سگریٹ نوشی پر پبلک مقامات پر پابندی سے بچوں کی صحت اور مثبت اثرات پڑے ہیں۔محققین کے مطابق اس قسم کے قوانین سے بچوں کی قبل از وقت پیدائش اور بچوں میں دمے کے اثرات میں اس قانون کے لاگو ہونے کے بعد سے دس فیصد کمی واقع ہوئی۔
رائل کالج آف اوبسٹیٹریشنز اینڈ گائناکالوجسٹس کا کہنا ہے کہ سگریٹ نوشی پر پابندی سے جوانوں او ب
چوں کو فائدہ ہوا ہے۔یہ ان بڑی تحقیقات میں سے ایک ہے جو مختلف ممالک میں سگریٹ نوشی کے خلاف قوانین کے بچوں پر اثرات کا جائزہ لیتی ہے۔اس تحقیق میں برطانیہ، بیلجیم اور امریکہ کی یونیورسٹیوں کے محققین نے اڑھائی لاکھ بچوں کی پیدائش اور ہسپتالوں میں اڑھائی لاکھ بچوں کے دمے کے نتیجے میں آمد کا جائزہ لیا۔اس تحقیق میں حصہ لینے والے ڈاکٹر جیسپر بین جن کا تعلق بیلجیم کی ماسٹریخٹ یونیورسٹی سے ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ۱۲سال سے کم عمر کے بچوں پر تحقیق کے نتائج بہت اہم تھے۔ محققین نے یہ نتیجہ لاکھوں بچوں کے پیدائش اور دمے کے مرض کا شکار ہونے سے اخذ کیا ہے ۔ڈاکٹر جیسپر نے کہا کہ ’ہماری تحقیق واضح طور پر ثابت کرتی ہے کہ پبلک مقامات پر سگریٹ نوشی سے پابندی سے کم سن بچوں اور بچوں کی عمومی صحت پر بہترین اثرات مرتب کیے ہیں اور اس کے نتیجے میں عالمی ادارہ صحت کی تجاویز جو سگریٹ نوشی سے پاک پبلک مقامات کے بارے میں ہیں کو تقویت ملتی ہے۔
‘اس تحقیق کے ایک اور مصنف پروفیسر عزیز شیخ کا کہنا تھا کہ اس تحقیق کے نتیجے میں بچوں کی صحت کو بہتر بنانے کی مزید مواقع موجود ہیں۔انہوں نے کہا کہ ’ایسے کئی ممالک جن میں تمباکو نوشی کے خلاف قوانین موجود نہیں ہیں انہیں ان نتائج کے بعد صحت کے اس اہم شعبے پر توجہ دینی چاہیے۔‘اس سے قبل کی جانے والی تحقیقات سے ثابت ہوچکا ہے کہ دنیا بھر میں ۴۰فیصد بچے تمباکو کے دھویں کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں جسے سانس کی تکالیف اور دمے کے حملوں کا باعث قرار دیا جاتا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ بچوں کو تمباکونوشی سے گھروں پر بھی بچانے کی ضرورت ہے حالیہ یورپی تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اس طرح تمباکو کے دھویں سے متاثر ہونے کے نتیجے میں شریانوں کے تنگ ہونے اور اس سے دل کی بیماریوں کے بڑھنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اس طرح کے مسائل بچوں میں اس لیے زیادہ پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پھیپھڑے اور قوتِ مدافعت ابھی نشونما پا رہی ہوتی ہے۔
اس وقت دنیا کی 16 فیصد آبادی تمباکونوشی سے پاک قوانین والے ممالک میں رہتی ہے۔
تمباکو نوشی کرنے والے افراد کی تنظیم فارسٹ کا کہنا ہے کہ ’یاد رہے کہ برطانیہ میں دمے کے مرض کا شکار افراد کی تعداد گزشتہ 40 سال میں تین گنا ہو چکی ہے اور اسی عرصے کے دوران تمباکونوشی کرنے والے افراد کی تعداد نصف ہو چکی ہے۔‘