سینما معاشرے کا عکاس ہوتے ہیں جہاں سماجی اور ثقافتی اقدار کو فلموں کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے تاہم حالیہ برسوں میں بڑی اسکرین پر بیان کی جانے والی کہانیوں کو کسی نئے خیال کو پیش کرنے پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ایسی ہی چند فلموں کے بارے میں جن کا بے باک اور دلیرانہ موضوع ان کو متنازع بنانے کا باعث بن گیا اور ان کے خلاف کئی حلقوں کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا۔
پی کے:حال ہی میں عامر خان کی فلم “پی کے” کو پہلے پوسٹر کی ریلیز کے بعد سے ہی جس مخالفت کا سامنا کرنا پڑا وہ سینم آں پر ریلیز کے بعد مزید بڑھ گئی کیونکہ اس میں معاشرتی توہم پرستی کو منفرد انداز میں پیش کیا گیا تھا جس پر ہندو گروپس کی جانب سے فلم پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ کئی شہروں میں سینم آں کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا گیا، یہاں تک کہ حکمران جماعت بی جے پی کے ایک رہنماء نے یہ الزام بھی عائد کر دیا کہ اس کی تیاری کے لیے سرمایہ پاکستان سے آیا ہے۔
رام لیلا:رنویر سنگھ اور دپیکا پڈوکون کی فلم “رام لیلا” کو اس وقت مشکل کا سامنا کرنا پڑا جب ایک عدالت نے اس کی ریلیز پر پابندی عائد کردی جس کی وجہ ہندوں کے مذہبی جذبات اس میں دکھائے جانے والے تشدد اور عریاں مناظر سے متاثر ہونا تھا۔ طویل جدوجہد کے بعد عدالت نے ریلیز پر پابندی کا حکم واپس لیا اور یہ فلم۲۰۱۳ میں سب سے زیادہ کمانے والی فلموں میں سے ایک رہی۔
مدراس کیفے:جان ابراہم کی فلم “مدراس کیفے” میں سری لنکن خانہ جنگی کو پیش کیا گیا تھا اور اس کی ریلیز پر تامل برادری کی جانب سے شدید احتجاج سامنے آیا جنھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ اس میں تامل ٹائیگرز کو منفی انداز میں پیش کیا گیا۔
اس فلم کو سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر تامل ناڈو میں ریلیز نہیں کیا گیا۔
آراکشن:کچھ دلت گروپس نے سیف علی خان کو اس فلم میں ایک دلت کا کردار دینے پر شدید احتجاج کیا، ان کا اعتراض تھا کہ سیف علی خان شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور انہیں دلت کے کردار میں دیکھنا ہماری برادری کی توہین ہے۔ اس فلم پر پنجاب، اترپردیش اور آندھراپردیش میں پابندی بھی عائد کی گئی تاکہ مقامی برادریوں کے جذبات نہ بھڑک سکیں۔
وشواروپم:س آتھ کے اداکار کمل ہاسن کی فلم “وشواروپم” کو بھی اس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب ریاست تامل ناڈو کے شہریوں اور مسلم گروپس کی جانب سے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے پر فلم پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا۔ سینما مالکان سے بھی اس فلم کو نہ دکھانے کا کہا گیا تاہم یہ فلم تامل ناڈو سمیت ہر جگہ ریلیز کی گئی اور کامیاب بھی قرار پائی۔
اوہ مائی گاڈ: اکشے کمار اور پاریش راول کی فلم اوہ مائی گاڈ میں مذہبی توہم پرستی کو شدید طنز کا نشانہ بناتے ہوئے پرانی رسومات اور عقائد کی کھل کر مخالفت کی گئی۔ فلم کے خلاف انتہا پسند تنظٰموں نے شدید احتجاج اور پابندی کا مطالبہ کیا۔ تاہم اس فلم کو ناقدین اور عوام نے خوب سراہا اور یہ 2012 کی بڑی فلموں میں سے ایک رہی۔
مائی نیم از خان:شاہ رخ خان کی یہ سپرہٹ فلم ریلیز کے موقع پر سیاسی تنازعات کا شکار رہی۔ سب سے پہلے تو شاہ رخ خان کو امریکا میں امیگریشن عملے کی جانب سے ہراساں کیے جانے کی اطلاعات سامنے آئیں جس پر ہندوستان نے امریکی حکام سے شدید احتجاج بھی کیا جبکہ فلم کو بھی خوب شہرت ملی۔ اس کے علاوہ فلم کو پاکستانی کرکٹرز کے بارے میں بولنے پر بھی ہندو جماعت شیو سینا کی جانب سے احتجاج کا سامنا کرنا پڑا جس نے فلم کے پوسٹرز جلائے اور سینما ہالوں پر حملے کیے۔
جودھا اکبر:ریتک روشن کی فلم “جودھا اکبر” کو راجھستان میں راجپوت برادری نے بلاک کروا دیا تھا۔
ان کا الزام تھا کہ ڈائریکٹر آشوتوش گواریکر نے اس فلم میں تاریخ کو تروڑ مروڑ کو پیش کیا ہے۔ ان کے بقول میواڑ کے راجا اودھے سنگھ کی بیٹی تھی اور اس کی شادی بادشاہ اکبر کی بجائے اس کی بیٹے سلیم سے ہوئی تھی۔
ویک اپ سڈ:رنبیر کپور اسٹارر فلم “ویک اپ سڈ” کو اس وقت مشکل کا سامنا ہوا جب اس میں ممبئی کو بمبئی پکارا گیا جس پر ریاست مہاراشٹر میں سرگرم انتہاپسند تنظیم ایم این ایس نے شدید احتجاج کیا۔ جس کے نتیجے میں فلمساز کرن جوہر کو اس تنظیم کے سربراہ راج ٹھاکر ے سے معذرت کرنا پڑی بلکہ فلم کے آغاز پر ایک اعلامیہ بھی شامل کیا گیا۔