برطانیہ سے مسلمانوں نے وفاداری کا اظہار کیا ہے
برطانیہ میں کروائے گئے ایک جائزے کے مطابق ملک میں مقیم مسلمانوں کی اکثریت پیغمبر اسلام کے خاکے بنانے والوں کے خلاف تشدد کی مخالف ہے۔
یہ بات بی بی سی کے ذریعے کرائے جانے والے ایک سروے میں سامنے آئی ہے۔
اس سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ انھیں ان لوگوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے جو مغربی مفادات کے
خلاف لڑنا چاہتے ہیں۔
تاہم ایک ہزار مسلمانوں پر مبنی سروے میں 27 فیصد لوگوں نے کہا ہے کہ انھیں پیرس پر کیے جانے والے حملے کے مقاصد سے ہمدردی ہے۔
تقریباً 80 فیصد نے کہا کہ پیغمبر اسلام کے خاکے کی اشاعت ان کے لیے انتہائی اشتعال انگیز تھی لیکن تقریباً دو تہائی افراد کا یہ بھی کہنا تھا کہ خاکہ شائع کرنے والوں کے خلاف تشدد کو کسی طور جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
سروے میں شامل تقریبا نصف لوگوں کا کہنا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے
یہ سروے بی بی سی کے لیے کامریس نے 26 جنوری سے 20 فروری کے دوران کیا تھا اور اس میں تقریباً 30 فیصد افراد کا کہنا ہے کہ انھیں چارلی ہیبڈو کے حملے پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔
خیال رہے کہ اسی طنزیہ رسالے نے پیغمبر اسلام کے خاکے شائع کیے تھے۔
اس سروے میں شامل تقریبا نصف لوگوں کا کہنا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور یہ کہ برطانیہ روز بروز کم روادار ہوتا جا رہا ہے۔
اتنے ہی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسلام کے خلاف تعصب کی وجہ سے ان کا برطانیہ میں ایک مسلمان کی حیثیت سے رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
35 فی صد افراد کا کہنا ہے کہ زیادہ تر برطانوی مسلمانوں پر اعتبار نہیں کرتے جبکہ 20 فی صد افراد کا کہنا ہے کہ مغربی لبرل سماج اسلام سے کبھی مطابقت نہیں رکھتا۔
بہر حال 95 فی صد لوگوں نے برطانیہ سے وفاداری کی بات کی اور کہا کہ یہاں کے مسلمان ہمیشہ برطانوی قانون کا پاس رکھیں گے۔
سروے میں شامل تقریبا 20 فی صد خواتین کا کہنا ہے کہ وہ برطانیہ میں محفوظ محسوس نہیں کرتیں
سروے میں شامل 20 خواتین نے کہا کہ وہ برطانیہ میں غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں جبکہ مردوں میں یہ شرح دس فیصد تھی۔
ٹوڈے کی رپورٹر سیما کوٹییچا کا کہنا ہے کہ ’اسلام امن اور محبت کا مذہب ہے نہ کہ تشدد کا اور ان جذبات کا بارہا اظہار کیا جا چکا ہے۔‘
بریڈفورڈ کالج کی ایک طالبہ سمیا اصلال نے بی بی سی کو بتایا سیاستدانوں اور میڈیا نے مسلمانوں کا غیر انسانی چہرہ بنایا ہے جس کے سبب وہ تمام طرح کے حملے کا شکار ہیں۔
انھوں نے کہا: ’یہ برطانوی سماج پر کہ وہ ہمیں کسی خطرے کے طور پر دیکھنا بند کرے اور ہمیں اپنائے۔ ہم سے ہمیشہ یہ نہ پوچھے کر برطانوی ہونے پر ہم کیسا محسوس کرتے ہیں۔ یہ ایسا ہی جیسے کوئی میرے لال بالوں کے بارے میں پوچھے کہ آج آپ کیسا محسوس کررہی ہیں اپنے لال بالوں کے بارے میں۔
مغرب میں مسلمانوں کے خلاف منافرت میں اضافہ ہوا ہے
’ایسا پوچھنا ہمیں دور کرتا ہے، ہماری جاسوسی ہوتی، ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم ان میں فٹ نہیں ہیں۔‘
تاہم دوسرے طلبہ محمد الحقارون کا کہنا ہے کہ ہم آہنگی مسلمان اور غیر مسلم دونوں کی ذمے داری ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اسلام میں کوئی ایسا ضابطہ یا قانون نہیں ہے جو ہم آہنگی سے روکتا ہو۔ جیساکہ پیغمبر حضرت محمد نے خود کہا ہے کہ ہر کسی کے ساتھ برابری کا سلوک کرو خواہ وہ گورا ہو یا کالا۔‘