امریکا نے خبردار کیا ہے کہ عراق کے شمالی شہر تکریت پر دوبارہ کنٹرول کے لیے سخت گیر جنگجو گروپ داعش کے خلاف سرکاری فوج اور اس کی اتحادی ملیشیاؤں کی کارروائی سے فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا نہیں ملنی چاہیے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ایرنسٹ نے بدھ کی شب معمول کی بریفنگ میں کہا ہے کہ ”یہ بات اہم ہے اور عراقی وزیراعظم حیدر العبادی نے بہ ذات خود اشارہ دیا ہے کہ یہ آپریشن فرقہ وارانہ بنیاد پر ذاتی بدلے چکانے کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے”۔
انھوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے ملک کا ڈھانچا پارہ پارہ ہوجائے گااور اس سے عراقیوں کی اپنے ملک کو درپیش خطرے سے نمٹنے کے لیے صلاحیت کمزور ہوگی۔
تکریت سے داعش کے جنگجوؤں کا قبضہ ختم کرانے کے لیے کارروائی میں امریکی فورسز حصہ نہیں لے رہی ہیں
اور اس میں عراقی حکومت کے تحت فورسز ، شیعہ ملیشیائیں ،رضاکار یونٹ اور ایران کے خصوصی دستے شریک ہیں۔
جوش ایرنسٹ نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ ایرانی فورسز تکریت میں داعش کے خلاف لڑائی میں شریک ہیں۔انھوں نے کہا کہ ہم نے آغاز ہی مِیں کَہ دیا تھا کہ امریکا ایرانیوں کے ساتھ عسکری شعبے میں کوئی تعاون نہیں کرے گا۔
تاہم اس خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ عراقی فورسز کے ساتھ شیعہ ملیشیاؤں اور ایرانی فورسز کے اہلکار سنی اکثریتی شہر میں انتقامی حملے کرسکتے ہیں۔وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے بتایا کہ امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے بدھ کو عراقی وزیراعظم حیدر العبادی کے ساتھ آپریشن کے بارے میں تبادلہ خیال کیا تھا اور ان کی جانب سے شہریوں کے تحفظ کے عزم کو سراہا تھا۔انھوں نے یہ یقین دہانی بھی کرائی تھی کہ تمام مسلح گروپ داعش کے جنگجوؤں کے خلاف ریاست کے تحت کام کریں گے۔