فضائی آلودگی سے ہونے والی اموات میں دل کے امراض، فالج اور پھیپھڑوں کے دائمی امراض کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر ہوا کا معیار بہتر بنانے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا تو فضائی آلودگی مثلاً اوزون گیس اور چھوٹے ذرات کی موجودگی سے ۲۰۵۰تک سالانہ ۶۶ لاکھ افراد ہلاک ہو سکتے ہیں۔
سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ فضائی آلودگی سے اس وقت دنیا بھر میں سالانہ ۳۳ لاکھ افراد ہلاک ہو رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر اموات ایشیا میں ہو رہی ہیں جہاں کھانا پکانے یا گھروں کو گرم رکھنے کے دوران ہونے والے توانائی کے اخراج کا بہت زیادہ اثر ہے۔اگر ہم نے فضا کی صفائی کے اقدامات نہیں کیے تو آلودگی سے ہونے والی اموات اگلے ۳۵سالوں کے دوران دگنی ہو سکتی ہیں۔فضائی آلودگی سے ہونے والی اموات میں دل کے امراض، فالج اور پھیپھڑوں کے دائمی امراض کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔بیرونی فضائی آلودگی کے صحت پر اثرات اور ان سے ہونے والی اموات کا عالمی سطح پر اندازہ لگانا آسان کام نہیں کیونکہ ہر علاقے میں ہوا کے معیار کی نگرانی نہیں کی جاتی اور ذرات کا زہریلا پن اپنے منبع کے لحاظ سے ہر جگہ مختلف ہوتا ہے۔اس تحقیق کے لیے دنیا بھر میں فضائی آلودگی سے پیدا ہونے والے صحت کے مسائل اور اموات کا اندازہ لگانے کے لیے ایک ماڈل تیار کیا گیا جس میں آبادی اور صحت سے متعلق اعداد و شمار استعمال کیے گئے۔اس کے نتائج کے مطابق بھارت اور چلی میں گھروں کو گرم رکھنے اور کھانا پکانے سے پیدا ہونے والی آلودگی سے سب سے زیادہ اموات ہوتی ہیں جبکہ امریکہ کے بیشتر علاقوں اور دیگر کچھ ممالک میں بجلی کے پلانٹس اور ٹریفک سے پیدا ہونے والی آلودگی اہم ہیں۔مشرقی یورپ، روس اور مشرقی ایشیا میں زراعت کے شعبے کا اخراج ہوا میں ننھے ذرات کی موجودگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جو لوگوں کے پھیپھڑوں میں جا کر بیماری، معذوری اور اموت کا سبب بنتا ہے۔برطانیہ کی لنکاسٹر یونیورسٹی میں ماحولیات کے سائنسدان اولیور وائلڈ نے کہا ہے ”یہ مطالعہ ہوا کے معیار کو نافذ کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے“ خصوصاً ایشیا کے گنجان آباد علاقوں میں۔