ایران میں حکومت کی جانب سے مختلف اشیا پر دی جانے والی سبسڈی کم کرنے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے
عالمی منڈی میں حالیہ ماہ تیل کی تیزی سے گرتی قیمتوں نے ایرانی صدر حسن روحانی کی کامیابیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
تیل کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے ایرانی معیشت کساد بازاری کا شکار ہے۔
ایران کے لیے مالی مسائل اجنبی نہیں ہیں لیکن سال 2013 میں حسن روحانی کے صدر بننے کے بعد سے ملک میں معاشی بہتری کی توقع کی جا رہی تھی۔
ایران میں مہنگائی کی شرح اور کرنسی کی قدر کو کنٹرول میں رکھنے کے علاوہ صدر حسن روحانی کی حکومت گذشتہ حکومت کے آٹھ سال کے دوران ملکی معیشت میں ہونے والی ابتری کو باہر نکالنے پر کام کر رہی ہے۔
گذشتہ سال اکتوبر میں ایران کے مرکزی بینک کے گورنر نے اعلان کیا تھا کہ سال 2011 کے بعد پہلی بار ملکی معیشت میں بہتری آئی ہے اور یہ کئی لوگوں کے لیے ثبوت تھا کہ صدر روحانی ملک کو درکار اقدامات پر پورے اترے ہیں۔
حکومت کرنسی کی گرتی قدر کو کم کرنے کی کوشش کی رہی ہے
لیکن اس کے تین ماہ بعد ایران کو تیل کی کم ہوتی قیمتوں کی صورت میں ایک نئی مشکل کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ملکی معیشت کا بہت زیادہ انحصار تیل کی برآمد پر ہے۔
لندن اور تہران میں کام کرنے والے سرمایہ کاری کے ادارے اے سی ایل کے بانی شراکت دار عامر علی عامری کے مطابق تیل کی کم ہوتی قیمتوں کی وجہ سے ایران کو مختصر مدت کی توقعات کے بارے میں تشویش ہے۔
’ اس وقت ملکی معیشت جمود کا شکار ہے جس میں جوہری پروگرام پر پابندیوں اور تیل کی قیمتوں میں گراؤٹ کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد کم ہوا ہے۔‘
عامر علی عامری نے کہا کہ نجی کاروبار سرمایے کے لیے جہدو جہد کر رہے ہیں اور اس میں بہت زیادہ خدشات بھی پائے جاتے ہیں۔
’تہران کے بازار حصصِ میں شیئرز کی خریدو فروخت قابل ذکر حد تک کمی آئی ہے۔ اس وقت وہاں جوہری پروگرام پر معاہدے کے نتائج کے بارے میں دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی ہے۔‘
اس وقت ایرانی حکومت مارچ سے شروع ہونے والے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں توازن کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
رواں مالی سال میں ایرانی حکومت کو تیل کی برآمد سے 20 سے 25 ارب ڈالر کی آمدن متوقع ہے اور آئندہ سال تیل کی آمدن کم رہنے کی توقع ہے۔ اس وقت اخراجات کے بڑے منصوبے روک دیے گئے ہیں اور وزارتوں کے بجٹ کم کر دیے گئے ہیں۔
گذشتہ سال دسمبر میں صدر حسن روحانی نے بجٹ کا خاکہ پیش کیا تھا۔ اس میں اخراجات کو تیل کی قمیت 72 ڈالر فی بیرل کے مطابق رکھا گیا تھا لیکن اس وقت تیل کی قیمت 50 ڈالر فی بیرل سے کم ہے اور اسی وجہ سے بجٹ کی منصوبہ بندی کا انحصار اب تیل کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ پر ہے۔
گذشتہ سال صدر حسن روحانی کے ایک مشیر نے تسلیم کیا تھا کہ تیل کی قیمت ایرانی معیشت کے لیے ایک دھچکا ثابت ہوئی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مالی خسارے کو مراعات میں کمی، مزید ٹیکس لگا کر، زیادہ نجکاری کی مدد سے کم کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
کارڈز پر اضافی ٹیکس میں اضافے کے ساتھ تیل اور خوراک کی قیمتوں میں اضافے کے بعد دسمبر سے اب تک روٹی کی قیمت میں اب تک 30فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے۔
کئی شہریوں کے نزدیک یہ بہت ہی مشکل وقت ہے۔ 32 سالہ آئی ٹی انجینیئر علی نے تہران سے ٹیلی فون پر بتایا کہ’ میں بہت پریشان ہوں۔ تیل کی قیمتوں کا مسئلہ ہر کسی کے ذہن میں ہے لیکن میں کوشش کرتا ہوں کہ اس کے بارے میں نہ سوچا جائے۔ میں زیادہ محنت کر رہا ہوں اور زیادہ کما رہا ہوں لیکن پھر بھی زیادہ اشیا خریدنے کی سکت نہیں رہی۔‘
ملک میں گذشتہ تین ماہ میں بے روزگاری کی شرح میں ایک فیصد اضافہ ہوا ہے اور گذشتہ سال کے اسی عرصے کے برعکس اب نوجوانوں کو ملازمت تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
بے روزگاری کے علاوہ دیگر کئی مسائل موجود ہیں جن میں معاوضوں کی ادائیگی نہ ہونا ہے۔
ایرانی صدر سے امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ ملکی معیشت میں بہتری لانے کے اقدامات کریں گے
عرش کو میونسپل کارپویشن نے 11 ہزار ڈالر گذشتہ آٹھ ماہ سے ادا کرنے ہیں۔
محقق اور مصنف عرش اب اپنے دوستوں سے ادھار مانگ کر گزاراہ کر رہے ہیں اور اپنی نئی زندگی شروع کرنے کے لیے آسٹریلیا یا کینیڈا جانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
’اس وقت مجھے ایک بڑے مالی بحران کا سامنا ہے اور اس کے شدید نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ چیزیں ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید مشکل ہوتی جا رہی ہیں۔‘
مزاحمت کرنے والی معیشت
ایران حکام اپنے حریف ملک سعودی عرب پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ امریکہ کے ساتھ مل کر ایک سازش کے ذریعے تیل کی قیمتوں کو کم کر رہا ہے اور اس کا انھیں آخر کار ایک نہ ایک دن الٹا نقصان ہو گا۔
ایرانی حکومت اب بھی پراعتماد ہیں کہ وہ تیل کے علاوہ دیگر مصنوعات کی برآمدات کے ذریعے اس مشکل سے نکل سکتے ہیں کیونکہ ایرانی معیشت مزاحمت کرنے والی ہے۔ اس منصوبہ بندی کے تحت مغربی ممالک پر انحصار کم کرنے کے لیے خوراک، ادویات اور صعنتی آلات سمیت مقامی پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ شامل ہے۔
سرمایہ کاروں کی نظریں ایران کی مغربی طاقتوں سے ہونے والے مذاکرات پر ہیں
اس سمت میں ہونے والی پیش رفت بھی نظر آ رہی ہے۔ کسٹمز کے حالیہ اعداد و شمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ گیس، پیٹرو کیمیکل مصنوعات کی برآمد میں اضافے کے ساتھ تیل کو نکال کر ایران کی دس ماہ میں دسمبر تک برآمدات 42 ارب ڈالر رہیں اور اس سے ملکی معیشت کو گذشتہ سال اسی عرصے کی نسبت 24فیصد فائدہ پہنچا۔
اس کا عندیہ ملتا ہے کہ ایرانی معیشت کتنی مزاحمت کر سکتی ہے تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ ایران کو ابھی معاشی محاذ پر مشکل کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دوبئی کے پام جزیرے پر ایران سے چھٹیوں پر آنے والے ایک مالدار ریئل سٹیٹ ڈویلپر نے مستقبل کے حالات کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ’ اس وقت تک سب کچھ ہوا میں ملحق رہے گا جب تک لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ جوہری پروگرام پر بات چیت سے کیا نکلتا ہے۔ اگر معاہدہ ہو جاتا ہے تو یہ معیشت کے لیے بے حد فائدہ مند ہو گا اور اگر ایسا نہیں ہوتا ایرانیوں کو بہت بڑا نقصان ہو گا۔