انڈونیشیا میں مسلمان خواتین کے لیے مخصوص منفرد مقابلہ حسن میں شمالی افریقی کے عرب ملک تیونس کی دوشیزہ فاطمہ بن غفراش دنیائے اسلام کی ملکہ حسن قرار پائی ہیں۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق یہ منفرد مقابلہ حُسن انڈونیشیا میں منقعد کیا گیا جس میں 18 مسلم ممالک کی 18 سے 27 سال کی درمیانی عمر کی 25 دوشیزاوں نے حصہ لیا۔ ان میں چار امیدواروں کا تعلق تین عرب ممالک سے تھا۔
انڈونیشیا میں ہونے والا یہ اپنی نوعیت کا چوتھا سالانہ مقابلہ تھا جس میں جنگ وجدل سے متاثرہ شام اور عراق جیسے ملکوں کی دوش
یزائوں کی بھی بھرپور حوصلہ افزائی اور ان کی مدد کی کوشش کی جاتی ہے۔
انڈونیشیا کے شہر ‘بوگیا کارٹا’ میں منعقدہ مقابلہ حسن میں 06 مقامی دوشیزائوں، مصر اور ملائیشیا سے دو دو جبکہ فلسطین، تیونس، ایران، ترکی، جنوبی افریقا، ہولینڈ، کینیڈا، امریکا، جرمنی، نائیجیریا، بنگلہ دیش، بھارت، سنگاپور، برطانیہ،ٹرینڈاڈ اور توباگو جیسے ممالک کی ایک ایک دوشیزہ نے حصہ لیا۔
عرب ممالک سے مقابلے میں حصہ لینے والی دوشیزائوں میں تیونس کی فاطمہ بوغفراش، فلسطین کی حنان ابو اسماعیل اور مصر کی ندا مصطفیٰ الاسمر اور آیہ ابو قورہ نے حصہ لیا۔ سنہ 2011ء 2012ء اور 2013ء میں ان مقابلوں میں نائجیریا کی اوبائیبی عائشہ اجیبولا، انڈونیشیا کی نینا سبتیانی اور ڈیکا رسیتانی ملکہ حسن قرار دی گئی تھیں۔
رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر اس مقابلے میں 25 دوشیزائوں نے حصہ لیا لیکن ابتدائی مقابلے میں 10 کو خارج کر دیا گیا تھا۔ ان میں سے 15 کے درمیان مزید مقابلے کرائے گئے اور حمتی طور پر ان میں سے تین کو فائنل کیا گیا۔ ان میں ایرن کی سامانہ زاند، نیجر ی بلقیس ادیبایو اور تیونس کی فاطمہ شامل تھیں۔ ایرانی دوشیزہ مقابلے میں دوسرے اور نائیجیریا کی تیسرے نمبر پر رہی جبکہ تیونس کی 22 سالہ فاطمہ بن بوغفراش اسلامی دنیا کی ملکہ حسن قرار پائی۔
ملکہ حسن کے لیے انعامات
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق The World Muslimah Award نامی ویب سائٹ نے اسلامی دنیا کی ملکہ حسن قرار پانے والی دوشیزہ کے انعامات کی تفصیلات جاری کی ہیں۔ مقابلے میں اول قرار دی گئی دوشیزہ کو کئی انعامات دیے جاتے ہیں۔ اسے حج بیت اللہ کے لیے دو افراد کے مکہ مکرمہ کے ٹکٹ، یورپ، مشرق وسطیٰ، ترکی، برونائی، ملائیشیا، بھارت اور ایران میں سے جہاں جانا چاہے تعلیمی اور ثقافتی ٹور کے اخراجات کے ساتھ ایک سنہری گھڑی جس کی مالیت 10 ہزار ڈالر یا اسی مالیت کے دینار انعام میں دیتے جاتے ہیں۔
حیا دار لباس
مقابلہ کی نگراں “مسلمہ العالمیہ فائونڈیشن” کے سیکرٹری جنرل جامیا شریف نے بتایا کہ ان کے ہاں منعقد ہونے والے مقابلہ حسن روایتی عالمی مقابلوں سے بالکل مخلتف ہوتے ہیں۔ مقابلے کے لیے وہ اسلام کے طرز لباس کا خاص خیال رکھتے ہیں، مقابلے میں حصہ لینے والی خواتین کو بکنی یا پیراکی کا لباس نہیں پہنایا جاتا اور نہ ہی ایسا لباس زیب تن کیا جاتا ہے جس سے اسلام کے تصور حیا پر کوئی انگلی اٹھائی جاسکے۔ مقابلے میں شریک تمام امیدوارائیں عبائیں،بڑی چادریں اوڑھنے کے ساتھ مکمل طوپر حجاب میں ہوتی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں جامیا شریف کا کہنا تھا کہ مسلم دنیا کی خواتین کے لیے مقابلہ حسن منعقد کرنے کا مقصد جہاں اسلامی ثقافت کا احیاء ہے وہیں خواتین میں احساس کمتری کے جذبے کو ختم کرنا ہے۔ ہم یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ بے پردگی کے ساتھ مقابلہ حسن ہوسکتا ہے تو کہ ایک وضع دار لباس میں ملبوس خواتین بھی اپنی ذہانت میں کسی سے کم نہیں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی دنیا کے مقابلہ حسن میں شامل خواتین کے ایمان، اسلام کی سماجی سرگرمیوں اور تعلیمات کے ساتھ ساتھ ان کے اسلامی پردے اور حیا کے بارے میں فہم کو بھی جانچا جاتا ہے اور ساتھ ہی ان کے تلاوت قرآن کریم کی فوقیت بھی جانچی جاتی ہے تاکہ پہلے اس کے راسخ العقیدہ مسلمان ہونے کا یقین ہو جائے۔