سینکڑوں تیونسی خواتین کا شام جاکر جہاد النکاح کے نام پر بےشمار دہشت گردوں کی درندگی کا نشانہ بننے کے بعد حاملہ ہوکر یا ایڈز کا شکار ہوکر ملک میں لوٹ کر آنا، تیونسی معاشرے میں تمام سطوح پر زیر بحث موضوع میں تبدیل ہوگا ہے۔
امور خواتین و خاندان کی وزیر “سہام بادی” نے نے تیونس میں کابینہ ہیڈکوارٹر میں ایک نیوز کانفرنس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ان کی وزارت نے تیونسی خواتین کے درمیان جہاد النکاح نامی نوظہور مسئلہ درپیش ہونے کی بنا پر ایک کرائسس مینجمنٹ سیل تشکیل دیا ہے۔
انھوں نے کہا: وزارت خواتین و خاندان، وزارت داخلہ سے اس نوظہور مسئلے کا انتظام و انصرام کرنے کے لئے جامع معلومات کے حصول کا انتظار کررہی ہے۔
اس خاتون وزير نے شمس ایف ایم ریڈیو سے بھی اس مسئلے میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ جو نوجوان خواتین شام میں جہاد النکاح کا شکار ہوکر ملک میں واپس لوٹی ہیں ان کو معاشرے میں لوٹنے کے لئے خصوصی نگرانی اور علاج معالجے کی ضرورت ہے اور اس مسئلے کی ترویج کا سد باب کرنا پڑے گا۔
قانونی لحاظ سے بھی تیونس میں اب اس مسئلے پر بحث ہورہی ہے کہ جہاد النکاح کا شکار ہونے والی خواتین اب بیوائیں سمجھی جائیں گی یا مطلقہ خواتین کے زمرے میں آئیں گی؟ کیا ان کے بچے جائز بچے ہیں اور کیا ارث و میراث میں بھی ان کا کوئی حصہ بنے گا یا نہیں؟
واضح رہے کہ اس وہابی بدعت کا شکار ہونے والی خواتین نے کہا ہے کہ انہيں ہر روز درجنوں افراد نے درندگی کا نشانہ بنایا ہے اور کسی سے بھی ان کا باقاعدہ نکاح نہیں پڑھا گیا اور نہ کسی نے کوئی صیغہ جاری کیا ہے اور نہ ہی معمول کی دعا ہوئی ہے اور نہ ہی ان خواتین کو عدت رکھنے کا موقع دیا گیا ہے اور یہ سوال بھی تشنۂ جواب رہ گیا ہے کہ ان کے پیٹ میں اولاد کس کی ہے؟
تیونس کے وزير داخلہ نے بھی حال ہی میں جہاد النکاح کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ جہاد النکاح تیونس کے مسلم معاشرے کی دینی اور اخلاقی اقدار کی کھلی خلاف ورزی اور بین الاقوامی سطح پر بھی یہ انسانی حقوق کی تمام قراردادوں اور کنونشنوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
سہام بادی نے ان مفتیوں کے فتوؤں کی بھی مذمت کی جو تیونس کی نوجوان لڑکیوں کو شام جاکر جنگجوؤں کے ساتھ جہاد النکاح کرنے کی ترغیب دلاتے ہیں۔
وزیر داخلہ لطفی بن جدو نے کہا: جن تیونسی لڑکیوں نے جہاد النکاح کی نیت سے شام کا سفر کیا ایسے حال میں اپنے ملک میں واپس آئی ہیں کہ حکومت شام کے خلاف لڑنے والے اجنبیوں اور غیر ملکیوں سے حاملہ ہوچکی ہیں یا پھر ان میں بعض خواتین ایڈز کے موذی اور لاعلاج مرض میں مبتلا ہوچکی ہیں۔
ادھر تیونس کے مفتی حمدہ سعید نے کہا: دین اسلام میں جہاد النکاح کے عنوان سے کوئی چیز وجود ہی نہيں رکھتا اور جو بھی اس کی ترویج و تبلیغ کرے اس کا کوئی دین نہيں ہے۔
حمدہ سعيد نے کہا کہ دین اسلام کی فقہ و حدیث اور تفسیر حتی کہ تاریخ میں جہاد النکاح نام کی کوئی چيز نہیں ہے اور رسول اللہ(ص) سے بھی جہاد کے مسائل میں اس قسم کا کوئی حکم نقل نہیں ہوا ہے۔
حمدہ سعيد نے کہا: جس نے بھی جہاد النکاح کی دعوت دی اس نے انہيں فعل حرام کی دعوت دی ہے۔