ممبئی(وارتا) تقریباًتین دہائی سے اپنے نغموں سے موسیقی کی دنیا کو سرابور کرنے والے معروف شاعر اورنغمہ نگار جاوید اختر کی رومانی نظمیں آج بھی اپنی جانب راغب کرتی ہیں۔ ۱۹۸۱میں پروڈیوسر ڈائریکٹر یش چوپڑااپنی نئی فلم سلسلہ کیلئے نغمہ نگار کی تلاش کررہے تھے ۔ ان دنوں فلم انڈسٹری میں جاوید اختر بطورمکالمہ نگار اپنی شناخت قائم کرچکے تھے۔ یش چوپڑا نے جاوید اختر سے فلم سلسلہ کے نغمے لکھنے کی پیشکش کی۔ فلم سلسلہ میں جاوید اختر کے نغمے ’دیکھا ایک خواب توسلسلے ہوئے‘اوریہ کہاں آگئے ہم ناظرین کے درمیان کافی مقبول ہوئے۔ فلم سلسلہ میں اپنے نغموں کی کامیابی سے پرجوش جاوید اختر نے نغمہ نگار کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ اس کے بعد جاوید اختر نے پیچھ
ے مڑ کر نہیں دیکھا ۔ انھوں نے ایک سے بڑھ کر ایک نغمے لکھ کر لوگوں کے دلوں پر راج کیا۔
۱۷؍جنور۱۹۴۵کو شاعر ونغمہ نگار جاں نثاراختر کے گھر جب ایک لڑکے کی پیدائش ہوئی تو اس کا نام رکھا گیا جادو،یہ نام جاں نثار اخترکے ہی ایک شعر کی ایک سطر’لمبا لمبا کسی جادو کا فسانہ ہوگا‘ سے لیاگیا ہے بعد میں جاں نثار کے یہی بیٹے جادو ’جاوید اختر‘کے نام سے فلم انڈسٹری میں مشہور ہوئے۔ بچپن سے ہی شاعری سے جاوید اختر کا گہرارشتہ تھا۔ ان کے گھر شعرو شاعری کی محفلیں سجا کرتی تھیں جنھیں وہ بڑی دلچسپی سے سنا کرتے تھے۔ جاوید اختر نے زندگی کے اتار چڑھائو کو بہت قریب سے دیکھا تھااس لئے ان کی شاعری میں زندگی کے فسانے کو بڑی شدت سے محسوس سے کیا جاسکتا ہے۔ جاوید اختر کے نغموںکی یہ خوبی رہی ہے۔ وہ اپنی بات بڑی آسانی سے دوسروں کو سمجھاتے ہیں۔ جاوید اختر کی پیدائش کے کچھ عرصہ کے بعد ان کاکنبہ لکھنؤ آگیا۔
جاوید اختر نے اپنی ابتدائی تعلیم لکھنؤ سے مکمل کی کچھ عرصہ تک لکھنؤ میں رہنے کے بعد جاوید اختر علی گڑھ آگئے جہاں وہ اپنی خالہ کے ساتھ رہنے لگے۔ جاوید اختر نے اپنی میٹرک کی تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے مکمل کی۔ اس کے بعد انھوں نے اپنی گریجویشن کی تعلیم بھوپال کے صافیہ کالج سے مکمل کی ۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد ان کا دل وہاں نہیںلگا اوروہ اپنے خوابوں کو نئی شکل دینے کیلئے ۱۹۶۴میں ممبئی آگئے۔ ممبئی پہنچنے پر جاوید اختر کو کئی مشکلات کاسامنا کرنا پڑا ۔ ممبئی میں کچھ دنوں تک وہ صرف ۱۰۰؍روپئے کی تنخواہ پر فلموںمیں مکالمے لکھنے لگے۔ لیکن ان میں سے کوئی فلم باکس آفس پر کامیاب نہیںہوئی۔
ممبئی میں جاوید اختر کی ملاقات سلیم خان سے ہوئی جو فلم انڈسٹری بطورمکالمہ نگار اپنی پہچان بنانا چاہتے تھے اس کے بعد جاویدا ختراورسلیم خان مشترکہ طورپر کام کرنے لگے۔ ۱۹۷۰میںآئی فلم انداز کی کامیابی کے بعد جاوید اختر کچھ حد تک بطورمکالمہ نگار فلم انڈسٹری میں اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ فلم انداز کی کامیابی کے بعد جاوید اختراورسلیم خان کو کئی اچھی فلموں کی پیشکش شروع ہوگی۔ ان فلموںمیں ہاتھی میرے ساتھی، سیتااورگیتا زنجیر ، یادوکی بارات جیسی فلمیں شامل ہیں۔ اس دوران ان کی ملاقات ہنی ایرانی سے ہوئی اورجلد ہی جاوید اختر نے ہنی ایرانی سے نکاح کرلیا۔ ۸۰کی دہائی میں جاوید اختر نے ہنی ایرانی سے طلاق لینے کے بعد شبانہ اعظمی سے شادید کرلی۔ ۱۹۸۷ میں آئی فلم مسٹرانڈیا کے بعد سلیم جاوید کی سپرہٹ جوڑی الگ ہوگئی۔ اس کے بعد بھی جاوید اختر نے فلموں کیلئے مکالمے لکھنے کا کام جاری رکھا۔ جاوید اختر کو ملے اعزازکو دیکھا جائے تو انھیں ان کے نغموںکیلئے آٹھ بار فلم فیئر ایوارڈ سے نوازاگیا۔ ۱۹۹۹میں جاوید اختر کو پدم شری سے نوازاگیا۔ ۲۰۰۷میں جاوید اخترکو پدم بھوشن اعزاز سے سرفراز کیا گیا۔ جاوید اختر کو ان کے نغموںکیلئے ساز ، بارڈر ، گاڈمدر ، رفیوجی اورلگان کیلئے نیشنل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ جاوید اختر آج بھی نغمہ نگار کے طورپر فلم انڈسٹری میں سرگرم ہیں۔