نئے قانون کی روشنی میں اب جاپانی فوجی ملک سے باہر بھی لڑ سکیں گے
دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے تقریباً 70 برس کے بعد پہلی مرتبہ جاپان کی پارلیمان نے فوج کو ملک سے باہر لڑنے کی اجازت دینے کے لیے ایک قانون کو منظور دے دی ہے۔
حزب اختلاف کی جماعت اس تجویز کی مخالف تھی جس نے اس سے متعلق بل کو روکنے کی کوشش میں خلل ڈالا اور اسی وجہ سے اس قانون پر ووٹنگ تاخیر سے ہوئی۔
پارلیمان کے باہر بھی اس کے خلاف مخالفین کا احتجاجی مظاہرہ ہوتا رہا۔
اس سے متعلق بل پارلیمان کے ایوان زیریں، جس میں حکمراں جماعت کی اکثریت ہے، میں پہلے ہی منظور ہوچکا تھا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ نئے ملٹری چیلینجز، جیسے چین کی بڑھتی طاقت، سے نمٹنے کے لیے دفاعی پالیسی میں یہ تبدیلیاں بہت اہم ہیں۔
حکومت ہفتے سے شروع ہونے والی پانچ روز کی تعطیل سے قبل ہی اس پر ووٹ چاہتی تھی۔ چونکہ حکومتی اتحاد کو دونوں ایوانوں میں اکثریت حاصل ہے اس لیے اپوزیشن اپنی تمام کوششوں کے باوجود اس بل کو روکنے میں ناکام رہا۔
ایوان بالا کے صدر مساکی یمازاکی نے کہا کہ اس بل کی حمایت میں 148 ارکان نے ووٹ دیا جبکہ مخالفت میں 90 ووٹ پڑے۔
جاپان کے اخبار ‘دی جاپان ٹائمز’ کے مطابق اس بل پر تقریباً 20 گھنٹوں تک بحث ہوئی اور بالآخر پارلیمان نے وزیراعظم شنزو آبے کے موقف کو تسلیم کر لیا۔
اس سے متعلق بل کی مخالفت میں جاپان کے مختلف علاقوں میں کافی دنوں سے مظاہرے ہوتے رہے تھے
دوسری عالمی جنگ کے بعد بننے والے چاپانی آئین میں خود کے دفاع کے علاوہ کسی بھی انٹرنیشنل تنازع کو طاقت کے ذریہ حل کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
مسٹر آبے کی حکومت سکیورٹی کے قانون میں تبدیلی کے لیے اس لیے زور ڈال رہی تھی تاکہ ضرورت پڑنے پر تین شرائط کے پورا ہونے پر بیرون ملک بھی فوج کو استعمال کیا جا سکے۔
وہ تین شرطیں یہ ہیں جن کی صورت میں جاپان بیرون ملک اپنی فوج کا استعمال کر سکتا ہے۔
1 جب جاپان پر حملہ ہو یا پھر اس کے کسی ایسے قریبی اتحادی پر حملہ کیا گیا ہو جس سے جاپان کے تحفظ کو خطرہ لاحق ہوجائے اور واضح طور پر عوام کی سلامتی خطرے میں پڑ جائے۔
2 جب حملے کو روکنے کے لیے کوئی مناسب متبادل نا ہو جس سے جاپان اور اس کی عوام کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
3 طاقت کا استعمال کم سے کم کیا جائے گا۔
اس سے متعلق بل کے خلاف کافی آوازیں اٹھیں اور جاپان بھر میں مظاہرے بھی ہوئے۔
اس نئے قانون کے تحت آئین میں تبدیلی کے بجائے اس کے معنی و مطالب میں تبدیلی کی گئی ہے۔ لیکن اس پر نکتہ چینی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون نا صرف جاپان کے آئین کے مخالف ہے بلکہ اس سے جاپان امریکہ کی قیادت میں ہونی والی غیر ضروری بیرونی جنگوں کا حصہ بن سکتا ہے۔
جمعے کے روز ڈیموکریٹک پارٹی کے رہمنا اکیرا گنجی نے پارلیمان میں بحث کے دوران کہا ’ہمیں ایسی خطرناک حکومت کو اس طرح سے چلتے رہنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ سکیورٹی سے متعلق وزیراعظم آبے کا بل ہمارے قانونی فریم ورک کے لیے ایک خطرہ ہے۔‘
لیکن اس کے حامی، جنہیں امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے، اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ جاپان اور اس کے علاقائی اتحادیوں کے دفاع کے لیے بہت ضروری ہے اور اس سے جاپان کو عالمی سطح پر امن کے قیام میں ایک بڑا رول ادا کر نے کا موقع مل سکے گا۔