مشرف عالم ذوقی
اردوکا اچھا ادب نکولائی گوگول کے اُوور کوٹ، سے نہیں، بلکہ فرقہ وارانہ فساد یا حادثوں کی کوکھ سے برآمد ہوتا ہے۔ یہ امر ایک ایسا بھیانک سچ بن چکا ہے جس پر از سر نو تحقیق کی ضرورت ہے۔ 55برسوں کے ہندوستان یا پاکستان کا اردو ادب دیکھ لیجئے۔ نئی نسل کیا لکھ رہی ہے اس پر گفتگو کرنے سے قبل اس ’سچ‘ کا تجزیہ ضروری ہے۔ انگریز حکومت ذہنی وجسمانی غلامی، تقسیم اور تقسیم کے بعد کا ماحول دونوں ملکوں کے درمیان اچھی اور بڑی کہانیوں کا سبب بنا۔ مسلمانوں ادیبوں کے یہاں لکھنے کے لئے برصغیر کے مسلمانوں کا المیہ ہی کافی نہیں تھا، پوری دنیا میں مسلمانوں سے متعلق جو بھی حادثات یا واقعات سامنے آرہے تھے وہ سب اردو کہانیوں کا حصہ بنتے جارہے تھے۔ افغانستان، یہودیوں کے ظلم، فلسطین اور چیچنیا ___ہندوستانی فرقہ وارانہ فساد، پاکستان میں مہاجروں کے حالات___ یہ سب موضوعات الگ الگ کہانیوں کا حصہ بن رہے تھے۔ پاکستانی ادب کا جائزہ لیجئے تو وہاں بھی تقسیم کا درد، 65 اور 71کی جنگیں، سقوط ڈھاکہ، مارشل لاءاور ’جنرلوں کے اوور کوٹ‘ سے نکلتی دہشت پسندی بار بار تخلیق کا سبب بنتی رہی ہیں۔ کبھی ڈھکی چھپی علامتوں میں انورسجاّد، انتظار حسین سے آصف فرّخی تک، کبھی سیدھے، صاف لفظوں میں جیسے نعیم آروی، زاہدہ آپا کی تخلیقات، لیکن ہر دفعہ ان بڑی تخلیقات کے دامن میں فساد اور خون شامل تھے۔ ہندوستانی اردو کہانی کا آسمان ان سے الگ نہیں تھا۔ یہاں بھی یہی درد جو گندرپال سے سید محمد اشرف، طارق چھتاری، محسن خاں، غضنفر، حسین الحق، عبدالصمد، عبید قمر، شوکت حیات ، علی امام نقوی سلام بن رزّاق، مقدر حمید، یہاں تک کہ بالکل نئے افسانہ نگار خالد جاوید، خورشید اکرم اور احمد صغیر تک کی کہانیوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔
پاکستانی ادب میں ’گلاسنوست‘ اور پیرسترئیکا‘ کی جو فضا ادھر کی کہانیوں میں دیکھنے میں آرہی ہے وہ پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی تھی۔ ’مارشل لائ‘ اور سینسر شپ میں جکڑی کہانیاں جس طور پ رابھی حال فی الحال کے پاکستان میں ’ایجادد‘ ہوئی ہیں یا لکھی جارہی ہیں، وہ بالکل ہی نئی اور چونکانے والی حقیقت بن گئی ہیں۔ یعنی یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آزاد صرف ادب ہوا، صحافت نہیں۔ پاکستانی صحافت میں ’آج کا سچ‘ ہندوستان کو لے کر صرف ایک ہی ہے___ اور وہ سچ ہے___ کشمیر (ہندوستانی تخلیق کاروں کے پاس بھی اِدھر آنے والے خطوط ورسائل میں شائع خطوط میں دریافت کیاجاتا ہے___ ”آخر آپ کشمیر پر سچ کیوں نہیں بولتے)۔ پاکستانی صحافت اِسی کشمیر کو لے کر ایک عرصے سے ہندوستان کے خلاف زہر اُگلنے کا کام کررہی ہے۔
لیکن ادب میں، اب ’علامت‘ اور ’اشارے‘ میں اپنی رائے ظاہر کرنے والا زمانہ گزرچکا ہے۔ لکھنے والے ’دوستی‘ کے مذہب پر یقین رکھتے ہیں۔ آج کا پاکستانی ادب دو ناراض دلوں کو جوڑنے کی کوشش کررہا ہے۔ پاکستانی افسانہ نگار گلزار جاوید کی کہانی کا یہ ٹکرا دیکھئے:
”اگر وادی تمہارے سامنے کھڑا ہے….جو پینسٹھ برس کا ہندوناگرک ہونے اور چالیس برسوں تک ہندوستان پولیس کی نوکری کرنے کے بعد بھی…. ہندوستان کا درد سینے میں پالے ہوئے ہے…. ہندوستانی پولیس کا پہ ریٹائرڈ آئی جی، آج اگر زندہ ہے تو صرف پاکستان کی دھرتی…. راولپنڈی کی مٹی کو چومنے کی آس میں…. جہاں اس کا جنم ہوا تھا…. جسے اپنا کعبہ اور مدینہ سمجھتا تھا….لو….! گرفتار کرواِس اُگروادی کو…. اگر تم اِس اُگروادی کو گرفتار نہیں کرو کہ اُس نے اپنے کعبہ، کی زیادت کے لئے، ایک معصوم سا جھوٹ بولا…. کم عقل انسان….! وہ اگروادی نہیں…. وہ تو شبھچنتک ہے…. تمہارا بھی…. میرا بھی…. اور اس دھرتی کا بھی ….!“
(شبھچنتک:گلزار جاوید)
اس کہانی کے کردار کو آپ تبدیل کرکے بھی دیکھ سکتے ہیں۔ سیاست دو دلوں پر حاوی ہوگئی ہے۔ نئی نسل اِس سیاست کو درکنار کرتی ہوئی آپس میں گلے ملنا چاہتی ہے۔
آزادی کے دس پندرہ برسوں میں، پاکستان میں بھی فرقہ وارانہ فساد، مہاجرت کا درد، نئے پاکستان کی اُلجھنیں موضوع بنی رہیں۔ ’خدا کی بستی‘ جیسا ناول اِسی درد سے نکلا تھا۔ قدرت اﷲ شہاب، عزیز احمد، ممتاز مفتی، آغابابر، صلاح الدین اکبر، خدیجہ مستور، حاجرہ مستور جیسوں کے افسانے درد کی کوکھ سے پیدا ہوئے تھے۔ 1960 کے بعد ادب میں جدیدیت کی شروعات ہوئی۔ پاکستان میں جدیدیت کا اثر کچھ زیادہ ہی قبول کیا گیا۔
ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش نے اپنی کتاب ’جدید اردو افسانے‘ میں لکھا ہے___
”1998 میں، پاکستان میں مارشل لاءلگادیا گیا، ’زبان بندی‘ کی جو صورت حال ہوئی، اُس سے باہر نکلنے کے لئے، افسانہ نگاروں نے علامتی انداز اختیار کیا۔ ینعی ایسی باتیں نہیں کی جائیں، جس سے مارشل لاءمیں اُن کی گرفتاری ممکن ہوسکتی تھی۔“ (جدید اُردو افسانہ)
ظاہر ہے پاکستان کے سخت مارشل لاءکا ’خوف‘ اُس وقت اردو افسانے پر صاف دیکھا جارہا تھا۔ اسی درمیان وہاں تجریدی یعنی ’Abstract‘ کہانیاں بھی لکھی گئیں۔انتظار حسین نے نئی کہانیوں کی ’بوطیقا‘ تحریر کی۔ انتظار حسین جدید افسانے کے بابا آدم بن گئے۔ آہستہ آہستہ لکھنے والوں کا قافلہ پھیلتا جارہا تھا___ رشید امجد،انورسجاّد، خالدہ حسین، منشایاد، احمد ہمیش، احمد داﺅد، فہیم اعظمی، سمیع آہوجہ، محمود واجد، شمشاد احمد، ناصر بغدادی، احمد جاوید، مرزا حامد بیگ، شمس نعمان، طاہر نقوی، اعجاز راہی، مظہر الاسلام، انورزاہدی، امراﺅ طارق، آصف فرّخی اور اسد محمد خاں۔
یہاں نام گنوانا منشا نہیں ہے۔ لیکن ذہین افسانہ نگاروں کا ایک بڑا قافلہ اچھی اورنئی کہانیاں لے کر سامنے آرہا تھا۔
1965ءمیں ہندوپاک جنگ کے نتیجے میں پاکستان میں پہلی بار حب الوطنی جیسے جذبوں نے جنم لیا۔ اُس وقت کے تقریباً تمام ادیبوں نے ہندو پاک جنگ کو اپنا موضوع بنایا۔ غلام الثقلین نقوی نے ’جلی مٹّی کی خوشبو‘ ممتاز مفتی نے ’پاکستان‘ خدیجہ مستورنے ’ٹھنڈا میٹھا پانی‘ اسی طرح مسعود مفتی اور فرخندہ لودھی نے بھی اس موضوع کو لے کر کہانیاں لکھیں۔
1971ءکی جنگ کے بعد معاملہ دوسرا تھا۔ سیاسی تحریکیں تیز ہوچکی تھیں۔ ادھر پاکستان کے ایک حصے کا الگ ہونا یعنی ’بنگلہ دیش‘ کا بننا پاکستانی کتھاکاروں کے لئے نئے جذبے کو لے کر آیا تھا۔ اسے پاکستانی افسانہ نگاروں نے جذباتی Tragedy کے طور پر لیا تھا۔ انتظار حسین، مسعود اشعر، اختر جمالی، رشید امجد، علی حیدر ملک، شہزاد منظر، اے خیام، احمد زین الدین، شہناز پروین، نورالہدیٰ سید جیسے افسانہ نگار اسی درد سے تحریک پاکر کہانیاں لکھ رہے تھے۔
1980سے 90کے درمیان ہندوستان پاکستان کے ادب میں ’بیانیہ‘ کی واپسی ہوچکی تھی۔ اسی درمیان پاکستان نے ’پراکسی جنگ‘ بھی ہندوستان کے خلاف چھیڑ دی تھی۔ کہانیاں نئی زمین، نئے پیدا شدہ مسائل کو سمجھنے کی کوشش کررہی تھیں۔
پاکستان میں 1958 یعنی مارشل لاءنافذ ہونے کے بعد سے لے کر ایک طویل عرصے تک ادب پر ایک خاص طرح کے سینسر شپ سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن یہ ایک عجیب سا سچ ہے کہ پاکستانی کہانیاں آج جنرل پرویز کے اس عامرانہ دور میں زیادہ آزاد ہوئی ہیں۔
نئے افسانہ نگار ہندوپاک جنگوں کی سیاہ تاریخ کو بھلا کر نئے سرے سے دوستی کا پیغام لے کر سامنے آرہے ہیں۔ محمد الیاس، گل نوخیز احتر، ثمینہ افتخار آوان کے بعد بالکل نئے کاروں کے مسافر فرحین چودھری، عنیقہ ناز، طاہرہ اقبال، شمیم آغاز قزلباش کی کہانیاں پاکستان کے نئے دور کی کہانیاں ہیں۔ یہ کہانیاں پاکستانی سیاست سے متاثر نہیں ہیں بلکہ آج کی سچ بولتی کہانیاں ہیں۔
آسٹریلیا میں مقیم پاکستانی ادیب اشرف شاد کے دو ناول ’بے وطن‘ اور ’وزیراعظم‘ آج کے پاکستان کی کہانیاں سناتے نظر آتے ہیں۔ فوجی حکومت کی دہشت، سرکاری سہولتوں کا غلط استعمال، مسجدوں پر بیٹھی ہوئی پولیس، دوسرے درجے کے شہری جیسے مہاجر___ اشرف شاد کے اس خطرناک ٹرائیلوجی (Triology)، کا تیسرا حصہ بھی ’صدر اعلیٰ‘ کے نام سے شائع ہونے جارہا ہے۔
آج کا پاکستان کیسا پاکستان ہے، اس کی جھلک ’وزیراعظم‘ ناول کی دو مثالوں سے لگائیں:
”کچھ نہیں پتہ کون کس کو مار رہا ہے۔ لگتا ہے سب اجتماعی خودکشی پر تل گئے ہیں___ پاگل پن کا پلیگ ہے جو پورے شہر میں پھیل گیا ہے___ بے نشان بندوقوں سے گولیاں
نکل کر آتی ہیں اور لہو چاٹ جاتی ہیں۔ پولیس مقابلے ہوتے ہیں، جن میں چلنے والی گولیاں صحیح نشانوں پر پہنچ کر سینے چھلنی کرتی ہے___ بوریاں اپنا منہ کھول کر آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی لاشیں اُگلتی ہیں___ عمارتوں میں راکٹ پھٹتے ہیں۔ شہر میں بے روزگار نوجوانوں کی فصلیں تیار کھڑی ہیں، جنہیں کاٹنے والا کوئی نہیں۔ سیاست کرنے والے بے حس گورکن بنے، قتل گاہوں پر طاقت کے تخت بچھائے بیٹھے ہیں۔“
یہ آج کے پاکستان کا چہرہ ہے۔ دہشت گردی اور گندگی سے بھرا چہرہ۔ اس چہرے میں ابھی تک پیار ومحبت کی کہانیوں کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ پاکستان کے اس چہرے کو ادب کے آئینے میں دکھانے کی ضرورت پڑتی تھی تو کشورناہید جیسوں کو ڈھکے چھپے الفاظ میں کہنا پڑتا تھا___ ’ہمارے ملک میں پرندوں کو پیار کنے کی بھی اجازت نہیں ہے___‘ بدلے بدلے پاکستان میں اب ناول ’وزیراعظم ‘سے یہ دوسری مثال دیکھئے:
”میں وہ آخری آدمی ہوں جو پردیش کو وطن بنانے کا مشورہ دونگا۔ لیکن تمہارے حالات ایسے ہیں کہ تمہیں اپنے گھر والوں کا مشورہ مان لینا چاہئے۔ واپس گئے تو تم اپنے گھر والوں کے لئے ایک اور مسئلہ بن جاﺅ گے۔ جذبات میں بہہ کر اُس رو میں شامل ہو جاﺅ گے، جو جیل جارہی ہے۔ یا گولیاں کھارہی ہے___ اس وقت تمہارا جانا واقعی صحیح نہیں ہوگا___“
دیکھئے تو کتنی خطرناک بات ہے۔ اشرف شادیا کوئی بھی پاکستانی ہجرت کیوں کرتا ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں۔ رشتوں کی سطح کیسی ہے؟ جذباتیت کہاں سو گئی ہے؟ احساس کہاں گُم ہوگئے ہیں؟ انسانیت نے کس طرح اِن پچپن برسوں میں دم توڑا ہے کہ واپس جاﺅ گے تو گھر کے لئے ایک مسئلہ بن جاﺅ گے اور وہاں جانے کے بعد پھر کیا ہوگا؟ بے روزگار نسل کس طرح گالیاں کھا رہی ہے یا جیل جارہی ہے___ پاکستان کے اس چہرے کو کل تک سامنے لانا آسان نہیں تھا۔ لیکن آج انور سین رائے سے عاصم بٹ تک، ان سب کی کہانیوں میں پاکستان کے اِسی چہرے کی چہرے کی جھلک ملتی ہے۔ کچھ مثالیں اور دیکھئے۔ یہ مثالیں اس لئے ضروری ہیں کہ ان کے بغیر ہم پاکستان کے درد کو ادبی تخلیق کی روشنی میں سمجھ ہی نہیں سکتے___
”ہمارا خاندان ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں بٹ کر بکھر گیا ہے اور میں لب گور بیٹھا ہوں، سوچتا ہوں کہ میرے پاس جو امانت ہے اسے تم تک منتقل کر دوں کہ اب تم ہی خاندان کے بڑے ہو۔ مگر اب حافظے کے واسطے ہی سے منتقل کی جاسکتی ہے، خاندان کی یادیں مع شجرئہ نسب قبلہ بھائی صاحب اپنے ہمراہ ڈھاکہ لے گئے تھے، جہاں افراد خانہ صائع ہوئے وہاں وہ یادگاریں بھی ضائع ہوگئیں۔“
(ہندوستان سے ایک خط: انتظار حسین)
”میں کیا کروں، میں جب سوچتا ہوں مجھے وہ منظر یاد آجاتا ہے، جب میری چھوٹی سی فیملی کے ہر فرد کو انتہائی بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا اور پھر اپنے چھوٹے چھوٹے پاﺅں سے چل کر یہاں تک پہنچا تھا۔ لیکن ہمیں صرف لمبی لمبی سڑکیں دے دی گئیں اور کہا گیا کہ چلتے رہو….“ (بے خدا کمرہ: طاہر مسعود)
”میں منی بس سے اُتر کر بڑے قریب سے محب وطن بہاریوں کے پہلے لٹے پٹے قافلے کا جائزہ لے رہا تھا۔ پولیس اور فوج کا پہرہ نہ تھا۔ بس اتنا ہی یہاں سے جانے والے بنگالیوں اور وہاں سے آنے والے بہاریوں میں فرق تھا۔ باقی سب کچھ ایک جیسا تھا___ انسان کے ہاتھوں انسان کے قتل ہونے کا ہولناک منظر۔“ (گودھرا کیمپ: نعیم آروی)
ان تمام تر کہانیوں کا ہیرو ’وقت‘ ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ساری کہانیاں حادثوں کی کوکھ سے جنمی ہیں۔ گودھرا کے حادثے پہلے بھی کہانی کا منظر نامہ بنتے رہے ہیں۔ نعیم آروی 1948 کے آس پاس پاکستان چلے گئے۔ اسی کے آس پاس گودھرا کیمپ کے خونی مناظر انہوں نے دیکھے ہوں گے، جو بعد میں اُن کی کہانی کا موضوع بنے۔
تقسیم کے بعد بلکتے پاکستان کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں تھا۔ تہمینہ درّانی جیسی انگریزی ادیبہ نے بھی پاسکتان کے ہولناک معاشرے کو قلمبند کیا ہے۔ یہی نہیں انورسین رائے کی ’چیخ‘ سلگتے پاکستان کی چیخ ثابت ہوئی:
”ہمیں بتاﺅ تمہیں کس بات کا ڈر ہے ہم تمہیں مکمل تحفظ دینے کا وعدہ کرتے ہیں۔ہمیں بتاﺅ کہ تم کن لوگوں کے ساتھ مل کر اخبار نکالتے تھے اس کے لئے رقم تمہیں کہاں سے، کیسے ملتی تھی؟ اخبار کو کہاں تیار کیا اور کہاں چھاپا جاتا تھا؟ اس کے لئے مضامین کون کون لکھتا تھا اور پھر اس اخبار کو کس طرح تقسیم کیا جاتا تھا اور کون کون تقسیم کرتا تھا؟“ وہ بولتے بولتے تھوڑی دیر کے لئے رک گیا اور میں سوچنے لگا: میں جس اخبار کو نکالنے کے لئے کام کرتا ہوں اس کا میری بیماری سے کیا تعلق ہوسکتا ہے اور جو کچھ یہ ڈاکٹر پوچھ رہا ہے اس میں سے بہت سی باتیں تو خود اخبار دیکھ کر معلوم کی جاسکتی ہےں کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں جسے معلوم کرنے کا کسی کا بیماری سے، خاص طور پر ذہنی بیماری سے کوئی تعلق ہو، میں نے ساری اسے بتادیں لیکن اس نے صرف اتنا کہا ”تم واقعی ایک احمق آدمی ہو۔“ (چیخ : انور سین رائے)
یہی ’احمق آدمی‘ یعنی فیوڈوردوستونسکی کا ایڈیٹ‘ پاکستانی معاشرے کا خاص چہرہ بن چکا ہے۔ عاصم بٹ کا ’دائرہ‘ اسی سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ یہاں پاکستانی مارشل لائ، پاکستانی فوجی حکومت اور تقسیم کے 55برسوں کے سینسر شپ میں پستا ہوا ہر ایک آدمی ایک مسخرہ ہے یا اسٹیج ایکٹر یا کٹھ پتلی، جس کا سرا ہمیشہ سے پاکستانی تانا شاہوں کے پاس رہا ہے۔ عوام کو صرف اشارے پر اپنا کرتب دکھانا ہے یا اپنا ’رول‘ پلے کرنا ہے آہستہ آہستہ پاکستانی فضا ان بندشوں سے آزاد ہورہی ہے۔ نئی نسل نے اب کھل کر ’بیانیہ‘ انداز میں اپنی بات کہنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔ صحافت کا ماحول چاہے جیسا بھی ہورہا ہو لیکن ادب نے کھلی ہوا میں سانس لینا شروع کردیا ہے۔ مرد اور خاتون افسانہ نگاروں کی ایک لمبی قطار سامنے آچکی ہے۔ یہ قطار بے خوفی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھارہی ہیں۔
ہندوستان کی سرزمین
حادثوں نے ہندوستانی اردو ادب کو خاصہ متاثر کیا ہے۔ آزادی کے بعد اردو کہانیوں میں تقسیم، غلامی، فرقہ وارانہ فساد اور آزادی کے بعد کی شناخت، موضوع بنے___ ایسے موضوع جن پر یہ کہانیاں مبنی ہیں۔
یہ بات ادب میں بار بار اٹھتی رہی ہیں کہ اردو والوں کی جڑیں کہاں ہیں۔ چند نقاروں نے اردو کے جدید افسانوں پر حملہ کرتے ہوئے یہ رائے بھی پیش کی کہ دراصل اردو کہانیاں اپنی بنیاد سے کٹ گئی ہیں۔ ’بنیاد‘ سے مطلب اپنی مٹی اپنی جڑوں سے۔ لیکن ایسا سوچنا درست نہیں ہے۔ حسین الحق کی ’خارپشت‘ ہو یا شموئل کی ’آب گینے‘ یا پھر شوکت حیات کی کہانی ’بانگ‘ہو۔ قمراحسن سے اکرام باغ تک انور خاں اور قمراحسن سے حمید سہروردی تک___ جدید کہانیاں اپنی ’ماٹی‘ اپنی سنسکرتی، اپنی جڑوں سے اتنی جڑی ہوئی تھیں کہ بار بار ہندوستانی سماج میں اپنے ہونے یا شناخت کا مسئلہ اٹھارہی تھیں۔ اسی موضوع کو لے کر شفق نے ’کانچ کا بازیگر‘ جیسا اہم ناول اور کئی دوسری کہانیاں بھی لکھیں۔
جدیدیت کا رجحان دراصل ڈرے ہوئے ادیبوں کی ڈری ہوئی آوازیں تھیں۔ وہ ڈرے ہوئے کیوں ہوئے کیوں تھے یا کس سے ڈر رہے تھے۔ اس پر تبصرہ کرنے یا بار بار بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
اردو ادیب کی بے بسی اور لاچاری کا عالم یہ ہے کہ اس نے بہت کم اپنی زمین سے جڑنے کی کوشش کیں۔ تقسیم کے آس پاس اچھے قسم کی، حقیقت نگاری کی مثال تو سامنے آئی لیکن آزادی کی ایک دودہائی گزرتے ہی یہ زمین ہمارے زیادہ تر افسانہ نگاروں کے پاس سے گم ہوگئی یا گم کردی گئی۔ ترقی پسندی سے جدیدیت کی طرف واپسی بھی دراصل ’ایک سہما ہوا ڈر‘ تھا۔ ڈرجو جمہوریت کی کوکھ سے برآمد ہوا تھا۔اسی خوف وہراس کو اردو والوں نے کچھ زیادہ اس لئے بھی محسوس کیا کہ پاکستان بننے کی سازش میں بھی اردو کا قصور ٹھہرایا گیا۔ اردو کے ساتھ دوسرا بڑا حادثہ یہ تھا کہ گھر گھر بولی جانے والی زبان سے اس کی حیثیت چھین لی گئی۔ اردو روزی روٹی سے کاٹ دی گئی۔
تقسیم کا زخز، ہندومسلم فساد، ماحول میں پھیلا ہوا خوف___ یہ نفسیاتی جائزہ، اس لئے بھی ضروری ہے کہ اردو ادیب تھوڑا تھوڑا ان سب سے متاثر ہوتا رہا۔اس لئے یہ کہنا مشکل نہیں ہے کہ ’اظہارِبیان‘ پر پابندی کے خوف سے اس نے ”جدیدیا تجریدی کہانیاں“ (نہ سمجھ میں آنے والے) کے درمیان پناہ لیا ہو۔ اسی سے ملتی جلتی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس مسلسل خوف نے اس کے پاس سے سیدھے (Direct) الفاظ کو عائب کردیا تھا۔ چونکہ وہ ادیب تھا، اسے لکھنے کا ’جوکھم‘ بھی اٹھانا تھا۔ وہ خاموش نہیں رہ سکتا تھا اور خوف سے پریشان ہوکر کھلے لفظوں، اپنی بات کہنے سے مجبور تھا___ شاید اسی لئے جدیدیت کی ابتدا ہوئی یا لکھنے والے لکھنے کے نام پر علاقوں کا سہارا لینے لگے۔ اس درمیان آزاد ہندوستان میں ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ ایک واقعہ اور پیش آیا تھا___ ازسرنو ان کا ”اسلامی کرن“ ہورہا تھا یعنی ہندوستانی جمہوریت کے نئے ماحول میں وہ ایک نیا سیکولر ہندوستان اپنے وجود میں پیوست کررہے تھے___ یہ گفتگومیں برسوں کے تجربے اور تجزیے کی بنیاد پر کررہا ہوں۔ اس تجربہ سے ‘غلط مطلب نکالنا درست نہیں ہوگا۔ لیکن ایسا ہورہا تھا۔ اسلام کی گہری دھند، آہستہ آہستہ چھٹ رہی تھی۔ اسے ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک بھیانک قسم کا کٹرپن‘ اپنے دل ودماغ سے الگ کررہے تھے۔ نئے ماحول میں مسلمان ہونے کے معنی بدلے تھے۔ جمہوریت کی لہراتنی تیزی سے آئی تھی کہ ’اظہار بیان‘ کے ئے نئے نئے الفاظ پیدا ہونے لگے تھے۔ اردو کہانیوں کا اب تک سب سے سنہرا زمانہ۔ اس زمانہ کے لکھنے والوں پر الزامات بھی لگائے گئے کہ ان کہانی کاروں نے اردو ادب سے قاری چھین لیا۔
دراصل قارئین کی مشکلات یہ تھیں کہ وہ ادب میں درآئی نئی تبدیلیوں کو اچانک سمجھ ہی نہیں پائے۔ نئی کہانیاں ان کے لئے ’مشقت‘ بھری کہانیاں تھیں۔ تجربے یا ’علامتوں‘ کے نام پر بیس سال ان تبدیلیوں کی آندھیوں کی زد میں آئے، لیکن___ 80 کے بعد ’بیانیہ‘کی واپسی نے ایک ساتھ کئی دوسرے سوال کھڑے کردیئے تھے۔
نئی ’کھیپ‘ میں اردو افسانہ لکھنے والا ’غیرمسلم‘افسانہ نگار غائب تھا۔ جوگندرپال، رتن سنگھ، کشمیری لال ذاکر، گربچن سنگھ کی نسل پرانی پڑ گئی تھی یا کھوتی جارہی تھی۔ نئے افسانہ نگار فرقہ واریت کی یکایک تیز ہوئی آندھی سے ڈر گئے تھے۔
رتھ یاتریائیں، بی ایچ پی کا بڑھتا ہوا اثر اور بابری مسجد کی شہادت کی گونج، اردو ادب کے لئے نئے موضوع بنتے جارہے ہیں۔ عبدالصمد اور ذوقی کے ناول، شموئل کی ’مہاماری‘ احمد صغیر، محمد علیم اور کوثر مظہری کے ناول کے موضوعات بھی انہیں حالات سے گزرتی ’کتھائیں‘ رہی ہیں۔ شوکت حیات کی ’گنبد کے کبوتر‘ بابری مسجد جیسے بھیانک المیہ پر مبنی کہانی ہے___ تو حسین کی ’استعارہ‘ گجرات پُرامیدوں کے نئے دروازے کھولتی ہوئے محسوس ہوتی ہے۔ جابر حسین کی نئی کہانیاں بھی گجرات کی ’راکھ‘ سے برآمد ہوئی ہیں۔ ان کی ڈائری کے جلے ہوئے اوراق میں بھی گجرات کی چیخیں سنائی دیتی ہیں۔
روسی شاعر ’رسول حمزہ توف‘ نے اپنی کتاب ’داغستان‘ میں لکھا ہے۔
”یہ مت کہنا کہ مجھے موضوع چاہئے۔
یہ کہنا،
یہ کہنا کہ مجھے آنکھیں چاہئے۔“
اردو والوں کو ’موضوع‘ نہیں آنکھیں چاہئے، یہ الگ بات ہے کہ یہ آنکھیں فی الحال بابری مسجد اور گجرات سے الگ کچھ بھی نہیں دیکھ پارہی ہیں اور دیکھیں بھی تو کیسے؟