جرمنی پہنچنے والے زیادہ تر مہاجرین کی کوشش موت اور جنگ سے فرار ہونا تھی جبکہ کچھ غربت سے چھٹکارہ بھی چاہتے تھے۔ شائد ہی کوئی ہو جو محبت میں گرفتار ہونے جرمنی پہنچا ہو۔
لینا کا خیال ہے کہ ہر مہاجر کی ایک جرمن گرل فرینڈ ہونا چاہیے
اگر جرمن معاشرے میں بھرپور طریقے سے انضمام کرنا ہے تو کچھ مہاجرین کو جرمنی میں محبت میں گرفتار ہونا پڑے گا تاہم یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ عراق سے ہجرت کرنے والا اٹھائیس سالہ علی جب گزشتہ برس جب میونخ سے برلن کے ریلوے اسٹیشن پر پہنچا تھا تو وہ بہت تھکا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ بہت سے دیگر مہاجرین اور تارکین وطن بھی تھے۔ وہیں اسٹیشن پر خواتین کا ایک چھوٹا سا گروہ ان مہاجرین کو خوش آمدید کہنے وہاں موجود تھا۔
تیس سالہ جرمن خاتون لینا بھی اس گروہ کا حصہ تھی۔ یہ جمعے کی رات تھی۔ لینا کی دوست نے علی اور دیگر دو عراقی مہاجرین کو ویک اینڈ پر رہنے کی جگہ فراہم کی تھی۔ ان مہاجرین کو برلن کے ایک مہاجر کیمپ میں منتقل کیا جانا تھا لیکن انتظامی وجوہات کی بنا پر پیر تک وہاں مہاجرین کو رہائش فراہم کرنا مشکل تھا۔
جب علی اور اس کے ساتھی لینا کی دوست کے ہمراہ جانے لگے تو لینیا نے علی کو کاغذ کے ٹکڑے پر اپنا موبائل فون نمبر لکھ کر دیا۔ لینا نے علی کو کہا کہ اگر اسے کسی مدد کی ضرورت ہو تو وہ جب چاہے، اسے فون کر لے۔
لینا اور علی فرضی نام ہیں، سیکورٹی وجوہات پر ان کے حقیقی نام ظاہر نہیں کیے گئے ہیں
لینا برلن کی فری یونیورسٹی سے سیاسیات میں ڈاکٹریٹ کی طالبہ ہے۔ اس کی خوش مزاجی نے علی کو متاثر کیا اور اگلے ہی دن علی نے لینا کو شکریہ کا میسج کر دیا۔ لینا نے بھی انگریزی زبان میں علی کو جواب روانہ کیا۔ یوں دونوں کے مابین پیغامات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ وہ ملنے لگے اور ان میں ایک انجانے تعلق نے جنم لے لیا۔
بغداد سے تعلق رکھنے والے آئی ٹی انجنیئر علی کو دیگر مہاجرین کے ساتھ برلن کے LaGeSo مہاجر کیمپ میں منتقل کیا گیا تھا۔ لینا دوستوں کے ہمراہ اکثرہی اس کیمپ میں جاتی اور اس کی علی سے بھی ملاقات ہو جاتی۔ خواتین رضا کاروں کا یہ گروپ جرمنی پہنچنے والے مہاجرین کی مدد کرتا رہا تاکہ انہیں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ایک دن علی نے لینا کو جواب میں میسج کیا کہ وہ بہت مصروف ہے اور اس نے نہیں مل سکتا۔ اس پر لینا بہت مایوس ہوئی اور اس نے سوچا کہ کہیں وہ علی کو تنگ تو نہیں کر رہی۔ اگلے ہی دن علی نے اس میسج کر دیا کہ وہ اسے یاد کرتا رہا۔ تب انہیں اندازہ ہوا کہ وہ دونوں محبت میں گرفتار ہو چکے ہیں۔
لینا کے بقول جب اس نے اعتراف کیا کہ وہ علی سے محبت کرنے لگی ہے تو اس کی دوستوں نے اس سمجھایا کہ ایک مسلمان اور مختلف معاشرے سے تعلق رکھنے والے شخص کے ساتھ زندگی گزارنا مشکل ہو سکتا ہے، ’’دوستوں نے مجھے احتیاط برتنے کا مشورہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ شائد علی جرمنی رہنے کی خاطر یہ سب کچھ کر رہا ہے‘‘۔
علی اگرچہ انتہائی مشکلات اور خطرناک سفر سے گزر کر جرمنی پہنچا تھا لیکن وہ مغربی طرز زندگی کے تحت محبت کرنے سے گھبراتا تھا۔ اس نے لینا پر واضح کر دیا کہ وہ شادی سے قبل کوئی جنسی تعلق پیدا نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی تربیت ایسے معاشرے میں ہوئی ہے، جہاں یہ ممکن نہیں ہے۔
علی لینا کے گھر والوں سے بھی مل چکا ہے۔ لینا کے والدین نے بھی علی کو پسند کر لیا ہے۔ انہیں احساس ہو چکا ہے کہ یہ دونوں واقعی طور پر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ علی بغداد میں موجود اپنے والد سے بھی مسلسل رابطے میں ہے۔ تاہم اس نے ابھی تک اپنے والد سے لینا کے بارے میں کوئی بات نہیں کی ہے۔ علی کا کہنا ہے کہ شادی سے پہلے ہی وہ اپنے والد کو سب کچھ بتا دے گا اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
لینیا نے کاغذ کے ٹکڑے پر اپنا موبائل فون نمبر لکھ کر علی کو دیا تھا
علی ایسے مفروضوں کو مسترد کرتا ہے کہ جرمن خواتین ’پاکباز‘ نہیں ہوتیں کیونکہ وہ شادی سے پہلے بھی جنسی تعلق قائم کر سکتی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ اہم بات یہ ہے کہ وہ لینا کو جانتا ہے اور اس پر بھروسہ کر سکتا ہے۔ علی دن میں ایک سوفٹ ویئر کمپنی میں کام کرتا ہے جبکہ شام کو وہ انسٹی ٹیوٹ میں جرمن زبان سکیھتا ہے۔
لینا کا خیال ہے کہ ہر مہاجر کی ایک جرمن گرل فرینڈ ہونا چاہیے، ’’میں ایک خوشحال گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں۔ میرے والد سرجن ہیں اور والدہ ڈاکٹر۔ ہمارا میامی میں بھی ایک گھر ہے۔ میں کچھ عرصہ نیوزی لینڈ بھی رہ چکی ہوں۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں اس طرح محبت میں گرفتار ہو جاؤں گی۔‘‘