پاکستانی فلم ’جلیبی‘ اصل میں تین کہانیوں کا مجموعہ ہے جو ایک دوسرے سے بالواسطہ ہی منسلک ہیں۔ایک گاڑی جس میں دو نقاب پوش افراد سوار تھے تیزی سے بھاگی جارہی تھی کہ اچانک انجن گرم ہوکر بند ہوجاتا ہے دونوں افراد نیچے اترتے ہیں کہ گاڑی میں آگ لگ جاتی ہے اور وہ جل کر راکھ ہوجاتی ہے۔یہ دونوں افراد بگا (علی سفینہ) اور بلو (دانش تیمور) ہیں جو ایک بینک سے ڈکیتی کرکے بھاگ رہے تھے اور اب لوٹی ہوئی رقم گاڑی میں جل جانے کے بعد ان کا باس دارا (عدنان جعفر) اب ان سے 24 گھنٹے کے اندر پانچ کروڑ روپے لاکر کر دینے کو کہتا ہے جو گاڑی میں جل گئے تھے۔ یہ دونوں افراد یتیم خانے میں ایک ساتھ پلے بڑھے تھے۔دوسری کہانی علی (وقار علی خان) اور اس کے چھوٹے بھائی جمی(عزیر جسوال) کی ہے جنہیں ایک مافیا کنگ سے اپنے والد کے قتل کا بدلہ لینا ہے۔یہ مافیا کنگ دنیاکے سامنے ایک معروف سیاستدان ہے جو اب وزیرِ اعظم کا مضبوط امیدوار ہے۔ ساجد حسن نے یہ چھوٹا مگر اہم کردار بخوبی نبھایا ہے۔ تاہم فلم کے اصل ولن (عدنان جعفر) ہی ہیں جنہوں نے ایک ماڈرن ولن کا کردار احسن طریقے سے ادا کیا ہے۔ایک اور کہان
ی ایمان (سبیکہ امام) کی ہے جو علی سے پیار کرتی تاہم علی اسے اس کے باپ تک پہنچنے کا راستہ بنا رہا ہوتا ہے۔ڑالے سرحدی کا کردار اس فلم میں ایک طوائف کا ہے جو بگا اور بلو کے اس پلان کا حصہ بن جاتی ہے جس کے تحت وہ پانچ کروڑ روپے لوٹنا چاہتے ہیں۔یہ ساری کہانیاں آپس میں کمزور لڑی سے جڑی ہوتی ہیں۔فلم کا انٹرول سے پہلے کا حصہ خاصہ الجھا ہوا ہے جس میں یہ چیز واضح نہیں ہوتی تاہم دوسرے حصے میں کہانی کسی حد تک سمٹنا شروع ہوجاتی ہے۔دانش تیمور اپنی اداکاری سے اس فلم میں کوئی خاص اثر نہیں چھوڑ سکے جبکہ وقار علی خان اور سبیکہ امام کی کمزور اداکاری اور مکالموں میں انگریزی کی بہتات نے اکثر سین بوجھل کردیے۔فلم میں جان علی سفینہ کی جاندار اداکاری ، فطری انداز اور بے ساختہ مکالمے ڈالتے ہیں جن کی وجہ سے لوگ کم از کم فلم چھوڑ کر نہیں اٹھیں گے۔ڑالے نے اگرچہ ڈانس نمبر ’میری ہنستی ہنستی آنکھوں میں ہے تھوڑا تھوڑا پانی‘ میں اپنے رقص سے تو کوئی اثر چھوڑنے میں کامیاب نہیں ہوئیں مگر بعد میں آنے والے سین میں انھوں نے اس کمی کو بہت اچھی طرح پورا کیا۔ فلم کا سب سے دلچسپ سین غالباً ڑالے سرحدی کا علی سفینہ کے ساتھ گاڑی کہ اندر نوک جھونک کا تھا جس سے پورا ہال محظوظ ہوا۔فلم میں جان علی سفینہ کی جاندار اداکاری ، فطری انداز اور بے ساختہ مکالمے ڈالتے ہیںڑالے سرحدی کی مضبوط شخصیت نے کئی مواقع پر نہ صرف گلیمر کی کمی کو پورا کیا اور ان کا بیساختہ انداز رنگ بھر گیا۔فلم کا اختتام کافی غیر متوقع تھا مگر اس کی وضاحت یاسر جسوال نے یوں کی کہ اب اس فلم کا ایک سیکوئل بھی آئے گا۔فلم کے ایگزیکٹیو پروڈیوسرز میں سے ایک سلمان اقبال کے مطابق اس فلم کا کْل بجٹ دس کروڑ ہے اور اسے پاکستان میں ۷۰سے زائد ڈیجیٹل اسکرینز پر ریلیز کیا جارہا ہے۔جلیبی پاکستان کے علاوہ امریکہ اور برطانیہ میں بھی۲۰ مارچ ہی کو ریلیز کی جارہی ہے جبکہ مشرقِ وسطیٰ میں اسے عربی سب ٹائٹل کے ساتھ ایک ہفتے بعد ریلیز کیا جائے گا۔فلم کے پروڈیوسرز کے مطابق یہ فلم مکمل طور پر پاکستان میں تیار ہوئی ہے اور یہ ایک ’میڈ ان پاکستان‘ فلم ہے سوائے اس کے کلر ٹریٹمنٹ کے جو تکنیکی سہولتوں میں کمی کی وجہ سے بیرونِ ملک کروانا پڑی۔جلیبی ماردھاڑ سے بھرپور فلم ہے اور اس میں علی سفینہ کی جانب سے گاہے بگاہے مزاح کا تڑکا بھی لگتا رہتا ہے مگر پھر بھی یہ ہی کہنا پڑے گا کہ فلم کی کہانی میں جلیبی کی طرح پیچ و خم ضرور تھے تاہم جلیبی کی مٹھاس موجود نہیں تھی۔