اسرائیل کو دھچکا، السیسی کی تجویز کی حیثیت بھی کمزور ہو گئی
امریکی حمایت یافتہ فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے جنگ بندی کے لیے مصری تجویز کو مسترد کرتے ہوئے حماس کے مطالبات کی حمایت کر دی ہے۔ اب تک اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 16 دنوں کے دوران 624 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
محمود عباس جنہوں نے حالیہ دنوں میں حماس کے سربراہ خالد مشعل اور عالمی رہنماوں سے
ملاقاتیں کی ہیں، منگل کی رات اپنے موقف کا کھلا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فتح نے حماس کی شرائط کی حمایت کی ہے۔
مبصرین نے اس اعلان کو اسرائیل کے ساتھ جاری جنگ میں اہم موڑ کا نام دیا ہے۔ واضح رہے حماس نے جنگ بندی کے لیے 2007 سے غزہ کا جاری اسرائیلی محاصرہ ختم کرنے اور قیدیوں کی رہائی کو بنیادی شرائط کے طور پر پیش کیا ہے۔ نیز رفح راہدری کھونے کا کہا ہے۔
پی ایل او کے سینئیر رہنما یاسر عبید ربو کے مطابق محمود عباس نے پانچ دنوں کی بات چیت کے بعد جنگ بندی کی کوشش کی ہے لیکن اس پر اسرائیل اور حماس دونوں نے جواب نہیں دیا ہے۔ اسی طرح حماس نے مصر کے جنگ بندی فارمولے کو رد کر دیا تھا۔
موجودہ مصری حکومت حماس کے اخوان المسلمون کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اس پر بھروسہ نہیں کرتی ہے۔ خبر رساں ادارے کے مطابق جنگ بندی نہ ہونے میں ایک بڑی رکاوٹ یہ بھی بنی ہے۔
اس کے مقابلے میں حماس نے ترکی اور قطر کی طرف رجوع کیا کہ وہ اس معاملے میں آگے آئیں، خیال رہے حماس اخوان المسلمون کی کلیدی اہمیت کی حامل اتحادی ہے جبکہ مصری حکومت نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔
مصر کی موجودہ حکومت نے غزہ کی ناکہ بندی کو بھی سخت کرنے میں حصہ ڈالا ہے اور رفح کراسنگ بند کر دی ہے۔ اس وجہ سے حماس اور غزہ کے لوگ سخت مشکلات سے دوچار ہیں۔
دوسری جانب قطر کے امیر اس صورت حال پر تبادلہ خیال کے لیے ان دنوں سعودی عرب میں ہیں جہاں امیر قطر سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ سے بھی ملاقات کر چکے ہیں ۔
محمود عباس کی طرف سے حماس کے جنگ بندی کے لیے موقف کی حمایت اسرائیل کے لیے سخت دھچکے کا باعث ہو گی اور مصری صدر السیسی کی تجویز کی اہمیت بھی مزید کم ہو جائے گی۔