اسٹار کاسٹ، غیر ملکی لوکیشنز اور تفریح کی ضمانت کے ساتھ جوانی پھر نہیں آنی (جے پی این اے) باآسانی اس سیزن کی سب سے بڑی ریلیز ثابت ہوسکتی ہے۔یہ فلم کئی شعبوں میں متاثر کن ہے جیسے کچھ اداکاروں کی بہترین اداکاری، اسٹائلنگ اور بہت زیادہ مزاح، مگر اس کا معیار کچھ بیکار گانوں، مصنوعات کی تشہیر کے ناگوار انداز، اور بولی وڈ سے بہت زیادہ متاثر ہونے نے گرایا بھی ہے۔ تاہم پھر بھی یہ ہنسنے پر مجبور کردینے والی ایسی تفریحی فلم ہے جو عید کے لیے بہترین ہے۔ہمایوں سعید نے فلم میں ایک وکیل شیری کا کردار ادا کیا ہے جو کئی برسوں بعد امریکا سے واپس آتا ہے تو اسے پتا چلتا ہے کہ اس کے تین بہترین دوست اب مظلوم شوہروں کا روپ اختیار کرچکے ہیں۔
شیری اپنے دوستوں کے ہمراہ بینکاک کے دورے کا انتظام کرتا ہے جہاں مہوش حیات، جو ایک انڈر ورلڈ ڈان کی بیٹی ہے، اس کی محبت میں گرفتار ہوجاتی ہے۔ پلاٹ میں پیچیدگی اس وقت آتی ہے جب شیری کے دوستوں کی بیویوں کو سب کچھ پتا چلتا ہے اور جب ان تینوں دوستوں کی شادیاں ٹوٹنے کے قریب پہنچ جاتی ہیں تو شیری خود لاہور کا رخ کرتا ہے تاکہ ایک ارب پتی شخص کی بیٹی سے شادی کرسکے. یہ کردار سوہائے علی ابڑو نے ادا کیا ہے۔جب مہوش لاہور پہنچ کر شیری پر اپنا حق جتاتی ہے تو ہنگامہ شروع ہو جاتا ہے۔اس کہانی میں جھول بہت زیادہ ہیں اور شیری اخلاق سے عاری ایسے کردار کا روپ اختیار کرلیتا ہے جس کا مقصد کبھی واضح نہیں ہوتا۔ کہانی کا وہ حصہ جس میں شیری کو ایک ارب پتی کی بیٹی اور انڈر ورلڈ ڈان کی بیٹی دونوں کے ساتھ دکھایا گیا ہے، براہ راست بولی وڈ فلم ہاؤس فل ٹو سے اٹھایا ہوا لگتا ہے۔
اس فلم کو جو چیز بچاتی ہے وہ اس کی مجموعی کاسٹ کی اداکاری اور اس میں موجود ہنسنے پر مجبور کردینے والے متعدد لمحات ہیں۔جوانی پھر نہیں آنی کی کامیڈی بہترین اور اس کی کاسٹ ریڑھ کی ہڈی ہے۔رائٹر واسع چوہدری جنہوں نے فلم میں شیری کے ایک دوست کا کردار بھی ادا کیا، نے اسکرپٹ کو ایسے ون لائنر سے بھر دیا ہے جو پاکستانی پاپ کلچر اور مضحکہ خیز حالات کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔ اس میں کچھ اچھے سنجیدہ مناظر بھی ہیں مگر اس کی کم عامیانہ کامیڈی دیکھنے والوں کو قہقہے لگانے اور تالیاں بجانے پر مجبور کردیتی ہے۔ان مزاحیہ جملوں کا نشانہ اشتہارات کے سلوگن، ڈرامہ سیریلز، فلمیں جیسے وار اور بول، شاہ رخ خان، ٹی وی اینکرز اور اداکار بذات خود ہیں۔ ایک منظر میں سوہائے علی ابڑو برائیڈل ڈیزائنر ایکس وائی زی کے پاس جاتی ہیں جبکہ ایک دوسرے منظر میں حمزہ علی عباسی کو پیارے افضل کہا جاتا ہے۔اداکار احمد علی بٹ کے حصے میں کچھ بہترین پرمزاح مناظر آئے جن میں غلطی سے اپنے سسر سے رومان کرنے کی کوشش اور تھائی مساج کے دوران سب کچھ الٹ ہوجانا وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان کی کامیڈی کی ٹائمنگ اس فلم کی چند بہترین چیزوں میں سے ایک ہے۔کاسٹ میں شامل بیشتر اداکاروں کے کردار مختصر تھے۔ جاوید شیخ اور بشریٰ انصاری دونوں نے مذاق اڑانے والے کردار ادا کیے جو کہ ان کے سابق کرداروں سے مشابہت رکھتے تھے۔ ان دونوں سینئر اداکاروں نے بہترین کام کیا ہے اور دیکھنے والوں کی توجہ حاصل کرنے کے ساتھ فلم کی دلچسپی کو برقرار رکھا ہے۔
ثروت گیلانی کا کردار بھی واسع پٹھان کی اہلیہ کے روپ میں مختصر تھا مگر وہ جب بھی سامنے آئیں، انہوں نے اسکرین کو روشن ہی کیا۔ ان کے بولنے کا انداز اور شخصیت کا انداز زبردست رہا اور انہوں نے مثالی اداکاری کی ہے۔ شوخ و چنچل سوہائے علی ابڑو شیری کی بگڑی ہوئی امیر منگیتر کے روپ میں خوب مستی میں نظر آئیں. خود پرستی اور آسائشات کی عادی لڑکی کے روپ میں انہوں نے نئی نئی امیر ہونے والی شہزادی کے کردار کی نقل بہترین انداز سے کی۔ ان کے ہیش ٹیگز اور ان کا ‘MA MA’ ان کے کردار کو یادگار بناتا ہے مگر فلم میں معاشرے کے اعلیٰ طبقے میں شادیوں کے حوالے سے موجود دیوانگی کو صرف سطحی طور پر موضوع بنایا گیا ہے. اس پہلو کو مزید بہتر بنایا جاسکتا تھا۔ہیروئین کے کردار میں مہوش حیات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ فلم میں کسی اور دنیا سے آئی ہیں، دیگر اداکار جو ڈانس کے دوران ناتجربہ کار نظر آتے ہیں وہیں مہوش زیادہ کوشش کے بغیر ہی بہترین رہیں. ان کا کردار کچھ زیادہ نہیں تھا مگر وہ اچھی نظر آئیں اور ان کا اعتماد بھی صاف نظر آیا۔بدقسمتی سے مہوش حیات بھی ہمایوں سعید کو ڈانس فلور پر اچھا دکھانے میں ناکام رہیں۔وہ ایک برے ڈانسر ثابت ہوئے اور اس چیز نے ان کی بہترین اداکاری کو گھٹا دیا۔ سنجیدہ اداکاری کے لیے مشہور ہمایوں سعید نے ثابت کیا کہ وہ کامیڈی کے حوالے سے غیر متوقع صلاحیت رکھتے ہیں۔عائشہ خان اور عظمیٰ خان نے اپنے مختصر کرداروں میں اچھا کام کیا مگر یہ مرد اداکار تھے جنہوں نے سب کو چندھیا کر رکھ دیا. واسع چوہدری، احمد علی بٹ اور حمزہ علی عباسی کے حصے میں فلم کے پہلے نصف کے دوران متعدد مزاحیہ مناظر آئے اور ان تینوں نے انہیں اچھے طریقے سے نبھایا. دوسرے نصف میں انہیں کم موقع ملا مگر پھر بھی کچھ مناظر میں وہ چھائے رہے۔حمزہ علی عباسی بلاشبہ ان تینوں سے بڑے اسٹار ہیں مگر انہوں نے اپنی کامیڈی ٹائمنگ سے مایوس کیا۔ فلم کے حوالے سے ان کے متنازع بیانات بھی سامنے آئے اور انہوں نے فلم سے دوری اختیار کی جس کا جواز آئٹم سانگز کو بنایا گیا۔ ایک منظر میں وہ سوئمنگ پول سے مختصر لباس پہنی ایک لڑکی کے ساتھ ابھرتے ہیں۔ مرکزی کرداروں میں موجود کوئی اور فرد بھی یہ منظر فلما سکتا تھا۔
فلم آئٹم سانگز کے بغیر زیادہ بہتر ہوتی:جے پی این اے کے آئٹم سانگز درحقیقت بیشتر بولی وڈ فلموں جیسے ہی ہیں مگر متعدد افراد نے انہیں دوہرے معیار کے طور پر دیکھا۔زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ان آئٹم سانگز نے فلم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا کیونکہ وہ بہت ہی برے تھے۔