تہران ۔ :ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے تہران کے جوہری پروگرام کے بارے میں امریکی رویے کو دشمنی پر مبنی قرار دیا ہے ۔
ایرانی خبر رساں ادارے ”ایرنا” کے ذریعے خامنہ ای کا یہ موقف ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب ایرانی جوہری پروگرام پر امریکا، یورپ اور ایران کے نمائندوں کے درمیان جنیوا میں باقی ماندہ امور پر مذاکرات کا دو روزہ دور جمعرات کے روز شروع ہوا چاہتا تھا۔
ایرانی سپریم لیڈر کا کہنا ہے کہ ”ہم نے پہلے اعلان کیا تھا کہ بعض متعین امور پر اگر ہم نے محسوس کیا تو ہم امریکا سے بات چیت کریں گے اور اس سے کہیں گے کہ وہ اپنی برائی کو روکے ۔” آیت اللہ خامنہ ای نے اس حوالے سے امریکا کیلیے لفظ امریکا کے بجائے ‘شیطان’ کا لفظ استعمال کیا تھا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے مزید کہا کہ ”جوہری مذاکرات کے دوران امریکا کی دشمنی دیکھی گئی ہے اور یہ محسوس کیا گیا ہے کہ امریکا ایران، اہل ایران، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہے۔” ان کا یہ موقف اس کے باوجود سامنے آیا ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ نے جوہری مذاکرات کے بارے میں اچھے الفاظ استعمال کیے ہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے رہبر کے ان خیالات کے سامنے آنے سے کچھ ہی دیر پہلے اس امید اظہار کیا کہ عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے کے سلسلے میں پیش رفت ہو گی اور آج دوبارہ سے شروع ہونے والی بات چیت مفید رہے گی۔
ان کا کہنا تھا ”جوہری معاملے پر بات چیت سنجیدگی اور مضبوط سیاسی عزم کے ساتھ جاری ہے۔” البتہ ایران کے ساتھ جنیوا میں مذاکرات کا حصہ رہنے والے سفارتکاروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ نومبر میں ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد میں مسائل پیش آ رہے ہیں۔ یہ مسائل سنٹری فیوجز کے حوالے سے پیش ہیں۔
ذرائع کے مطابق اسی وجہ سے ٹیکنیکل امور پر شروع ہونے والے مذاکرات رک گئے تھے۔ واضح رہے تکنیکی امور پر 19 سے 21 دسمبر کے ہونے والے مذاکرات کو اسی وجہ روکا گیا تھا۔ مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ سنٹری فیوجز کا معاملہ ابھی سلجھنا باقی ہے۔
دوسری جانب امریکی کانگریس کے ارکان میں ایسی معقول تعداد موجود ہے جو ابتدائی جوہری معاہدے پر خوش نہیں اور سمجھتی ہے کہ اس سے ایران کو جوہری طاقت بننے کا موقع ملے گا۔