ایران کی جانب سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکامی کی صورت میں اس پر دوبارہ پابندیاں عائد ہوسکتی ہیں
امریکہ کے صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایران کے جوہری معاہدے کی توثیق سے یہ تاثر ملا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کی دوڑ سے دور رکھنے کا یہ سب سے بہترین حل ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان طے پائے جانے والے جوہری معاہدے کی اتفاق رائے سے توثیق کی ہے۔
15 ارکان کی جانب سے پیش کی جانے والی مشترکہ قرارداد میں توثیق کی گئی کہ اگر ایران اپنے جوہری پروگرام کو محدود کردے تو اس کے خلاف پابندیوں بھی اٹھا لی جائیں گی۔
صدر اوباما نے سلامتی کونسل میں معاہدے کی توثیق کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’اس سے ایک واضح پیغام ملا ہے کہ وہ ممالک جو مذاکرات میں شامل نہیں تھے لیکن وہ اس پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ اُن کے خیال میں بھی یہی مسئلے کا بہترین حل تھا۔‘
امریکی صدر نے کہا کہ ’اس مسئلے پر بین الاقوامی سطح پر اتفاق رائے کے بعد کانگریس بھی اس اتفاق رائے پر توجہ دے گی۔‘
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد میں ایران کی جانب سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکامی کی صورت میں اقوام متحدہ کی پابندیوں کا میکانی نظام بھی شامل کیا گیا ہے۔
اب پر مزید 90 دن تک کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جائے گی۔ یہ وقت امریکی کانگریس کو دیا گیا ہے تاکہ وہ اس بات کا فیصلہ کر سکے کہ آیا وہ اس کی منظوری دیتی ہے۔
امریکی صدر براک اوباما کا کہنا ہے کہ وہ پر امید ہے کہ یہ قرارداد ناقدین کو ’واضح پیغام‘ دے گی کہ ’خاصی تعداد میں ممالک‘ سفارتکاری کو ’ایران کو جوہری ہتھیاروں سے دور رکھنے کے لیے سب سے اہم ترین ذریعہ سمجھتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلے سے متعلق ایک وسیع عالمی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ ’مجھے اپنے کام سے اندازہ ہے کہ کانگریس اس وسیع اتفاق پر توجہ دے گی۔‘
واضح رہے کہ ایران کا موقف ہے کہ اس کی جوہری پیغام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
ایران کا موقف ہے کہ اس کی جوہری پیغام پرامن مقاصد کے لیے ہے
اس سے قبل سنہ 2006 اور 2015 کے درمیان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں سات قراردایں پیش کی جاچکی ہیں جن میں ایران کی یورینیم کی افزودگی کو روکنے کی درخواست کی گئی تھی۔ واضح رہے کہ یورینیم کی افزودگی پرامن مقاصد کے لیے استعمال ہوسکتا ہے تاہم اس سے جوہری ہتھیار بھی تیار کیے جاسکتے ہیں۔
ان میں چار قراردادوں کے بعد ایران پر پابندی عائد کی گئی تھیں۔
پیر کے روز سلامتی کونسل نے رسمی طور پر اس کے پانچ مستقل ارکانوں امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین اور روس اور جرمنی کے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی توثیق کی۔
قرارداد کے مطابق جب تک عالمی جوہری تنصیبات پر نظر رکھنے والی تنظیم انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) اس کے بات کی تصدیق کی رپورٹ نہیں کرتی کہ ایران نے جوائنٹ کمپریہنسیو پلان آف ایکشن کے مطابق عمل درآمد کیا ہے تب تک اس عائد پابندیاں نہیں اٹھائی جائیں گی۔
دوسری جانب سلامتی کونسل میں امریکہ کی نمائندگی کرتے ہوئے سمنتھا پاور نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ جوہری معاہدے سے امریکہ کے ’ایرانی حکومت کی جانب سے ملک میں انسانی حقوق کی پامالیوں یا جوہری معاہدے کے علاوہ ایران کی جانب سے پیدا کیا جانے والے عدم استحکام کے بارے میں موقف تبدیل نہیں ہوگا۔‘
ایرانی مندوب غلام علی خوشرو کا کہنا تھا کہ وہ ’اپنی ذمہ داریوں میں ثابت قدم‘ رہیں گے۔ انھوں نے امریکی الزامات کو بے بنیاد اور مضحکہ خیر قرار دیا۔
ایرانی وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے امریکہ کو ایران کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کا بیان واپس نہ لینے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے
ادھر ایرانی وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے امریکہ کو ایران کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کا بیان واپس نہ لینے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
ایرانی خبررساں ادارے ارنا کے مظابق ان کا کہنا تھا: ’طاقت کا استعمال۔۔۔ ایک راستہ نہیں بلکہ ایک ناقص اور خطرناک اشتعال انگیزی ہے۔‘
ان کا یہ بیان امریکی وزیرِ دفاع ایشٹن کارٹر کے دورہ اسرائیل کے دوران اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ جوہری معاہدے کے باوجود ایران کو جوہری بم بنانے سے روکنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ اس معاہدے کی اسرائیل نے شدید مخالفت کی ہے اور وزیراعظم نیتن یاہو نے اسے ’تاریخی غلطی‘ قرار دیا تھا۔