واشنگٹن (ایجنسی)امریکہ نے حال ہی میں طے پانے والی جوہری ڈیل کے بارے میں ایرانی صدر حسن روحانی کے فاتحانہ بیانات کو ملکی سیاست اور حکومتی حلقوں کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔واشنگٹن کے مطابق حسن روحانی کا یہ کہنا کہ ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے عالمی طاقتیں اْن کے مطالبات کے آگے جھک گئی ہیں، اصل میں ایران کے داخلی سیاسی عمل کا نتیجہ ہے۔ امریکی بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ عبوری جوہری ڈیل کے حوالے سے ایرانی صدر کا بیان اندرون ملک اٹھتے ہوئے سیاسی دباؤ کا نتیجہ ہے۔ وہائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی کے مطابق یہ حیران کْن نہیں ہے اور کسی کو بھی حیرانی کا اظہار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ایرانی حکومت عبوری جوہری ڈیل کو اپنے انداز میں ایرانی عوام کے سامنے پیش کر رہی ہے۔ عالمی طاقتیں ایران کے جوہری پروگرام پر تحفظات کا اظہار کرتی رہی ہیں۔جے کارنی نے واضح کیا کہ یہ اہم نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ وہ کیا کریں گے یا کرتے ہیں۔ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ ٹوئٹر پر ایرانی صدر حسن روحانی کے جاری کردہ بیان پر امریکی کانگریس کی جارحانہ پالیسی کا پرچار کرنے والے اراکین نے انگلیاں اٹھائیں ہیں۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا تھا کہ دنیا کے ساتھ اْن کی حکومت کے تعلقات ایرانی قوم کے مفاد کے مطابق ہیں اور جنیوا میں دیکھا گیا کہ عالمی طاقتیں ایرانی قوم کی خواہش کے سامنے جھک گئیں۔امریکا میں اوباما انتظامیہ اِس وقت اِن کوششوں میں ہے کہ کسی نہ کسی طرح کانگریس کے سخت نکتہ نظر رکھنے والے اراکین کی جانب سے ایران پر پابندیوں کے نئے سلسلے کو اگر روکا نہیں جا سکتا تو کچھ عرصے کے لیے مؤخر کروا دے۔ مبصرین کے مطابق اگر کانگریس میں پابندیوں کا نیا بل محض پیش بھی کر دیا جاتا ہے تو اِس سے ایرانی جوہری پروگرام کے حوالے سے طے پانے والی عبوری ڈیل کو شدید ٹھیس پہنچ سکتی ہے اور اس کے علاوہ ایرانی قیادت بھی سخت رویہ اختیار کر سکتی ہے۔ ایران میں جوہری پروگرام کے خلاف عالمی دباؤ پر ناگواری پائی جاتی ہے۔ایران میں جوہری پروگرام کے خلاف عالمی دباؤ پر ناگواری پائی جاتی ہے۔امریکی کانگریس میں ایران پر پابندیوں کی نئی قرارداد کو پیش کرنے والوں کا کہنا ہے کہ۱۰۰ رکنی سینیٹ میں وہ اپنی قرارداد کے حوالے سے ۵۹؍ اراکین کی حمایت رکھتے ہیں۔ جارحانہ عزائم کے حامل اراکین سینیٹ کا خیال ہے کہ نئی قرارداد کے حامی ارکان کی تعداد ۶۷تک پہنچ سکتی ہے۔ اِسی طرح امریکی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان میں بھی اِس نئی قرارداد کی حمایت میں اضافے کا بھی بتایا گیا ہے۔
کانگریس میں اٹھنے والی صورت حال پر وائٹ ہاؤس میں یقینی طور پر بے چینی پائی جاتی ہے۔سینیٹ میں اکثریتی پارٹی کے لیڈر سینیٹر ہیری ریڈ کا کہنا ہے کہ فی الحال ایران پر پابندیوں کی کوئی نئی قرارداد پیش نہیں کی جا رہی۔ اِس دوران ڈیموکریٹک پارٹی کی دس کلیدی کمیٹیوں نے سینیٹر ہیری ریڈ سے کہا ہے کہ وہ ایران پر پابندیوں کی کسی نئی قرارداد کو پیش کرنے کی حامی مت بھریں ورنہ جوہری پروگرام پر جاری سفارتکاری کا عمل شدید متاثر ہو سکتا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما بھی کھلے عام اراکین کانگریس کو مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ قرارداد پیش کر کے جوہری سفارتکاری کے راستے کو بند کرنے کی کوشش نہ کریں۔