نئی دہلی۔18مارچ(یو این این)بی جے پی کے شعلہ فشاں لیڈر ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کے مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے حالیہ بیان’مسجد ایک عمارت ہے، کوئی مذہبی جگہ نہیں اور اس کو کبھی بھی منہدم کیا جاسکتا ہے‘ پر اپناشدید ر د عمل ظاہر کرتے ہوئے آل انڈیا تنظیم علماء حق کے قومی صدر اور معروف عالم دین مولانا محمداعجاز عرفی قاسمی نے ایک پریس نوٹ میں یہ کہا ہے کہ مسجد ایک مقدس و پاکیزہ مقام اور عبادت کی جگہ ہے، اور جو جگہ ایک بار مسجد اور عبادت کے لیے مختص ہوجائے وہ تا قیامت مسجد رہتی ہے، اس کو کبھی کسی بنیاد پر منہدم نہیں کیا جاسکتا۔ انھوں نے ڈاکٹر سبرامنیم کو اسلامی تاریخ و تہذیب سے ناواقف اور ہندستان کی سیکولر اور جمہوری اقدار و رایات سے ناآشنا قرار دیتے ہوئے کہا کہ سبرامینم
سوامی کاموجودہ بیان سراسر مغالطہ انگیز اور اسلامی مسائل و امور سے عدم واقفیت کامنہ بولتا ثبوت ہے۔ انھوں نے فقہ اسلامی کی روشنی اسلامی امور کے ماہرین کے اقوال و دلائل کی روشنی میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کومسجد کی مذہبی اہمیت کے حوالے سے کوئی بیان جاری کرنے سے پہلے اسلامی اسکالرز سے مشورہ کرنا چاہیے تھا۔ انھوں نے سبرامنیم سوامی جے کے ذریعے مساجد کے انہدام کے تعلق سے سعودی عرب کی مثال کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اولا تو اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ سعودی عرب میں مساجد کو صرف ایک عام عمارت کا درجہ دیاجاتا ہے، اس کوعبادت گاہ اور مذہبی مقام کا درجہ نہیں دیا جاتا، اور اگر بالفرض یہ تسلیم کرلیا جائے تو بھی کسی انفرادی طرز عمل اور مخصوص ملک کے معاملے سے استدلال کرنا اور اس کو ہر ملک اور ہر شخص کے لیے قابل عمل قرار دینے کا مطالبہ کرنا ایک مضحکہ خیز عمل لگتا ہے۔ کیوں کہ مسلمانوں کے لیے قرآن و حدیث میں وارد ہونے والی اسلامی تعلیمات قابل عمل اور قابل مثال ہوتی ہیں، کسی مخصوص ملک یا کسی فرد کا کوئی عمل دنیا کے کسی بھی خطے میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے قابل عمل نمونہ نہیں بن سکتا۔انھوں نے کہا کہ سعودی عرب میں اور بہت سارے تعزیراتی قوانین نافذ العمل ہیں، کیا ہندستان میں ان کے نفاذ کے سفارش بھی کی جاسکتی ہے؟ انھوں نے سبرامنیم سوامی کو ایک مخصوص آئیڈیالوجی پر عمل پیرا تشدد پسند لیڈر کہا ۔ انھوں نے مزیدکہا کہ سوامی جی بی جے پی اور سنگھ پریوار کے اشارے پر جب اور جس وقت چاہتے ہیں، مسلم دشمن اور جمہوریت مخالف بیانات جاری کرکے میڈیا کی سرخیوں میں بنے رہنا چاہتے ہیں اور اس کا انتخابات میں فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ ریاست آسام میں جاری ہونے والے حالیہ اقلیت مخالف بیان کو بھی اسی سیاق میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے لوجہاد، گھرواپسی، سارے ہندستانیوں کو ہندو قرار دینے اور مسجد کے تقدس کے حوالے سے اس قسم کے زہر آلود بیان پر مرکزی حکومت کی خاموشی کو قوم و ملک کے لیے سنگین اور خطرناک بتلاتے ہوئے کہا کہ اشتعال انگیزی پر آمادہ انتہاپسند لیڈران کے خلاف حکومت کو نوٹس جاری کرنے اور قانونی چارہ جوئی کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ ورنہ ملک کا امن و سکون اور مشترکہ گنگا جمنی تہذیبی اقدار کو سخت ٹھیس پہنچے گی اور اس عمل سے ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضاکو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔