ذوہیب خان اب تک ٹی ٹوئنٹی میچوں میں 377 رنز اور 46 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں
قومی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کا ٹائٹل جیتنے والی ریجن کی ٹیم کے کپتان ذوہیب خان کا کہنا ہے کہ اب ان کی نظریں پاکستان کی قومی ٹیم پر ہیں جہاں وہ اپنا بین الاقوامی کیریئر شروع کرنے کے خواہشمند ہیں۔
’میں یہ نہیں کہتا کہ آپ سیدھا ٹیم کا حصہ بنا دیں لیکن اتنا ضرور کہتا ہوں کہ جو پرفارم کرے اسے ضرور موقع ملنا چاہیے تا کہ بعد میں کسی کو یہ پچھتاوہ نہ ہو کہ میں نے کرکٹ کا ہی انتخاب کیوں کیا۔‘
بی بی سی بات کرتے ہوئے ذوہیب خان کا کہنا تھا کہ انھوں نے کرکٹ کھیلنے کا آغاز ٹینس بال سے کیا تھا۔
’بچپن میں بڑے بھائی کے ساتھ ٹینس بال سے میچ کھیلنے جاتے ضرور تھے لیکن صرف باہر بیٹھ کر دیکھنا ہی پڑتا تھا کیونکہ بھائی نہیں کھلاتے تھے۔
’لیکن بعد میں جیسے جیسے وقت گزرا تو میں نے ٹینس بال کے بڑی سطح پر ہونے والے ٹورنامنٹس میں بھی حصہ لیا جہاں میں نے سہیل تنویر اور کئی بڑے کھلاڑیوں کے خلاف میچز کھیلے۔‘
دو سال سے پشاور ریجن کی کپتانی کرنے والے ذوہیب خان نے سنہ 2001 میں پشاور سے انڈر 19 کرکٹ کھیلنے کا آغاز کیا، جبکہ انھوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ کا آغاز سنہ 2008 میں زیڈ ٹی بی ایل کی جانب سے کیا تھا۔
ذوہیب خان اب تک 75 فرسٹ کلاس میچوں میں 33.26 کی اوسط سے 3094 رنز بنا چکے ہیں، جبکہ انھوں نے 162 فرسٹ کلاس وکٹیں بھی حاصل کر رکھی ہیں۔
اس کے علاوہ ذوہیب خان 45 ٹی ٹوئنٹی میچوں میں 377 رنز اور 46 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے مزید بتایا کہ وہ گذشتہ سات برسوں سے انگلینڈ میں نیو کاسل پریمئیر کرکٹ لیگ میں بین ول ہل کی نمائندگی بھی کر رہے ہیں۔
ذوہیب خان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان کرکٹ اکیڈمی کی جانب سے بنگلہ دیش کا دورہ کر چکے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے خلاف سائیڈ میچ کھیل چکے ہیں اور آسٹریلیا اے کے لیے پاکستانی سکواڈ کا حصہ بھی رہ چکے ہیں۔
پشاور ریجن اور کراچی بلوز کے درمیان ہونے والے فائنل میچ میں شاہد آفریدی کی وکٹ حاصل کرنے پر ذوہیب خان کا کہنا تھا کہ ’یہی کھلاڑی ہمارے رول ماڈلز ہیں اور ان کے خلاف یا ان کے ساتھ کھیل کر بہت اچھا لگتا ہے اور اگر آپ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو زیادہ خوشی ہوتی ہے۔‘
رول ماڈل کا ذکر ہوا تو ان کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے پاکستانی کرکٹ ٹیم میں اچھے کھلاڑی آتے چلے گئے وہ انھیں اپنے لیے رول ماڈل بناتے چلے گئے۔ ان کے پسندیدہ کھلاڑی وسیم اکرم تھے، بعد میں وقار یونس ہو گئے۔
اپنے ساتھی کھلاڑی اور کراچی بلوز کے خلاف عمدہ بلے بازی کرنے والے محمد رضوان کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ’ہر کوئی رضوان کی بیٹنگ اور فیلڈنگ کی بات کر رہا ہے لیکن میرے خیال میں وہ بہت اچھا کیپر بھی ہے جس پر کوئی بات نہیں کرتا۔‘
’محمد رضوان نے جس طرح قومی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں ذمہ دارانہ بلے بازی کا مظاہرہ کیا ہے اسی سے اس کے ٹیلنٹ کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنا اچھا کرکٹر ہے۔‘
پاکستان کے دورہ زمبابوے کے لیے ٹی ٹوئنٹی سکواڈ کا حصہ بننے والے اور قومی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے عمران خان جونئیر کے بارے میں ذوہیب نے بتایا کہ ’عمران خان تین مختلف قسم کی سلو ڈیلوریز کرواتے ہیں۔‘
’عمران میں صلاحیت تو موجود ہے لیکن سب سے بڑی خصوصیت جو ان میں ہے وہ یہ کہ وہ اپنی صلاحیت کا بہترین استعمال جانتا ہے اور قومی ٹورنامنٹ میں پاکستان کے تمام سینئیر کھلاڑیوں کو اس کو کھیلنے میں مشکلات ہوئیں۔‘
آخر میں اپنے مستقبل کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’میری بھی دوسرے بہت سے نوجوان کرکٹرز کی طرح یہی خواہش ہے کہ کسی طرح ایک موقع مل جائے۔ لیکن میں اپنی کوشش کر رہا ہوں اور اچھی کارکردگی دکھاتا رہوں گا۔‘