اس نعرے کے خالق کا کہنا ہے کہ ’دراصل جے سوئی چارلی کا یہی مطلب ہے کہ میں آزاد ہوں اور میں خوفزدہ نہیں ہوں‘
فرانس میں چارلی ایبڈو میگزین پر حملے کے بعد لاکھوں افراد نے ’جے سوئی چارلی‘ یعنی ’میں چارلی ہوں‘ نامی ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے سماجی روابط کی
ویب سائٹوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
لیکن ساتھ ہی ساتھ ایسے لوگ بھی تھے جنھوں نے اس کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہوئے اس شبیہ کا ٹریڈ مارک حاصل کرنے کی کوشش کی۔
’جے سوئی چارلی‘ والی تصویر بنانے والے جواشم رونسن اب اس بات سے پریشان ہیں کہ تجارتی مفادات کہیں اس جملے میں پنہاں جذبات کو ہی نہ ختم کردیں۔
جواشم چارلی ایبڈو کے دفتر سے پانچ منٹ کے فاصلے پر رہتے ہیں۔ وہ ایک فیشن ميگزن ’سٹائلسٹ‘ کے فرانسیسی ایڈیشن کے لیے کام کرتے ہیں۔
جب انھوں نے اور ان کے دوستوں نے گذشتہ ہفتے چارلی ایبڈو کے بارے میں پہلی بار سنا تو وہ سن رہ گئے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم آنے والے شمارے کے لیے اپنے پروڈکشن روم میں کام کر رہے تھے کہ اسی درمیان ہمارے ایک دوست نے ٹوئٹر پر اس حملے کے بارے میں رپورٹ دیکھی۔‘
’ہم سب صدمے میں آ گئے۔ ہم نے میں خوفزدہ ہوں، میں متنفر ہوں جسے پیغامات دیکھے جو ان ناامیدیوں کے پیغامات میں بار بار دہرائے جا رہے تھے۔ میں نے چارلی ایبڈو کے لوگو کی تلاش کی اور اس بغور دو تین منٹ تک دیکھتا رہا اور یہ سوچتا رہا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔‘
دنیا بھر میں اس ہیش ٹیگ کو 70 لاکھ بار سے زیادہ استعمال کیا گیا ہے
انھوں نے کہا: ’میں بہت غم زدہ اور چپ تھا۔۔۔ چارلی ایبڈو کے لیے کام کرنے والے لوگ جھنجھوڑنے کے لیے ہمیشہ حدود کوبڑھاتے رہتے تھے اور ایسے لوگوں کا ہونا ہمیشہ اچھا ہوتا ہے جو چیزوں کو ہلاتے رہیں کیونکہ اس سے دنیا میں تبدیلیاں آتی ہیں۔‘
رونسن نے میگزن کے نام کے ہی فونٹ میں ایک سہل گرافک تیار کیا۔ ہر چند کہ اس وقت ٹوئٹر پر ان کے صرف 400 فالوورز ہی تھے لیکن یہ تیزی کے ساتھ پھیل گیا اور گذشتہ ایک ہفتے میں یہ جے سوئی چارلی ہیش ٹیگ کو 70 لاکھ بار ری ٹویٹ کیا جا چکا ہے اور یہ خبر سے متعلق سب سے زیادہ استعمال کیے جانے والے ہیش ٹیگز میں سے ایک ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے’اسے کوئی دھوم مچانے یا کسی دوسرے مقصد کے تحت نہیں بنایا تھا۔ سینکڑوں لوگوں مبارک باد کے پیغام بھیجے۔ ایسی خوفناک چیز کے لیے مبارکباد حاصل کرنا عجیب بات ہے۔۔۔ اس لیے پہلے ہم نے شکریہ بھی ادا نہیں کیا۔
’پھر مجھے پتہ چلا کہ وہ اس لیے شکریہ ادا کر رہے ہیں کہ وہ بھی یہ سوچ رہے تھے اور اس کے ذریعے انھیں ان کے خیالات کی ترسیل کا موقع ملا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’دراصل جے سوئی چارلی کا یہی مطلب ہے کہ میں آزاد ہوں اور میں خوفزدہ نہیں ہوں۔‘
دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں نے اس نعرے کو سڑکوں پر بلند کیا ہے
اس کے بعد انھیں میڈیا کی جانب سے زبردست توجہ ملنے لگی لیکن وہ بعض غلط رپورٹنگ سے بہت بدظن ہوئے۔
ایک نے تو یہ کہا کہ وہ حملے کے خوف سے اپنا چہرہ نہیں دکھانا چاہتے جبکہ انھوں نے بی بی سی کے کیمرے کے سامنے آنے سے انکار کے لیے یہ کہا کہ وہ ایک حملے کے شکار لوگوں سے توجہ ہٹاکر اپنی جانب مبذول نہیں کرنا چاہتے۔
لیکن حال میں ایک دوسرا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے اور وہ ہے اس جملے کے تجارتی استعمال کا۔ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ فرانس میں اس جملے کے ٹریڈ مارکہ کے لیے 50 درخواست دی گئی ہیں جن میں سے کوئی بھی رونسن کی جانب سے نہیں ہے۔
رونسن نے بتایا کہ انھوں میڈیا کی آزادی کی ایک این جی او ’رپورٹرز وداؤٹ بورڈرز‘ کو اپنے اصلی آرٹ ورک کے استعمال کی اجازت دی ہے اور انھوں نے وکیل سے اس نعرے کے تجارتی استعمال روکنے کے سلسلے میں بات کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ’اس کی تخلیق کے پس پشت کا مقصد خالص رہے۔ چالیس لاکھ لوگوں نے پیرس کی سڑکوں پر اس نعرے کو بلند کیا ہے۔ انھوں لندن اور نیویار کے علاوہ دنیا بھر کی سڑکوں پر اسے بلند کیا ہے۔ مجھے اس بات سے نفرت ہوگی کہ کوئی اس سے پیسہ بنانے کی کوشش کرے۔‘