میں انسانی حقوق کی صورتحال پر نظر رکھنے والے ایک مانیٹرنگ ادارے کے مطابق شام کے جنوبی حصے کے ایک اہم قصبے پر قبضے کے لئے کرد اور دولت اسلامیہ عراق وشام [داعش] کے جنگجوئوں کے درمیان شدید جھڑپوں کے نتیجے میں کم از کم 40 افراد ہلاک ہوگئے۔
شامی آبزرویٹری برائے انسانی حقوق نے یہ بھی بتایا کہ باغیوں کے قبضے
میں موجود دمشق کے جنوب مشرقی قصبے عربین پر بشار الاسد کی وفادار فوج کے فضائی حملے کے نتیجے میں 11 افراد ہلاک ہوگئے۔
آبزرویٹری کے مطابق یہ تصادم ہفتے کے روز اس وقت شروع ہوئے جب داعش نے حسکہ صوبے کے قصبے تل تمر کو کرد باغیوں سے چھیننے کے لئے جارحانہ کارروائی شروع کی تھی۔ اس لڑائی کے دوران دونوں اطراف کے 40 جنگجو ہلاک ہوچکے ہیں۔
آبزرویٹری کے ڈائریکٹر رامی عبدالرحمان نے بتایا کہ داعش نے قصبے میں داخل ہونے کی کوشش کی تھی مگر کرد فوجیوں نے مدد طلب کر لی جس کے نتیجے میں انہیں تازہ کمک حاصل ہوگئی اور وہ داعش کے جنگجوئوں کو پسپا کرنے پر مجبور کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
داعش نے تل تمر کی سٹریٹیجک محل وقوع کی وجہ سے اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس قصبے پر قبضہ کرنے سے داعش حسکہ کے مشرقی حصے اور اسی نام کے ایک کرد گائوں کے درمیان موجود اہم سڑک پر قبضہ ہوجائے گا جبکہ انہیں عراقی سرحد تک رسائی حاصل ہوجائے گی جبکہ ایک طرف موصل میں پہلےسے داعش کے زیر مسلط علاقے سے رابطہ پورا ہوجائے گا۔
آبزرویٹری کے مطابق عربین پر حملے کے دوران قصبے میں شہری آبادی پر بھی میزائل داغے گئے جس کے نتیجے میں 50 شہری زخمی ہوگئے۔
اس کے علاوہ حلب کے دیہات ھندرات اور بشکوئے میں شامی فوج اور القاعدہ سے منسلک شامی تنظیم النصرہ فرنٹ کے درمیان تصادم جاری ہے۔ ان جھڑپوں میں ایک بچہ اور النصرہ کا ایک مقامی کمانڈر ہلاک ہوگئے تھے۔
ایک فوجی ذرائع نے عالمی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ بشار الاسد کی وفادار فوج نے پچھلے ماہ ناکامی کے بعد ایک بار پھر ھندرات میں باغیوں کے ٹھکانوں پر حملہ کردیا۔