ادھر فلسطینی صدر محمود عباس کہہ چکے ہیں کہ آنے والی کابینہ اسرائیل کو تسلیم کرے گی اور تشدد کو مسترد کرے گی
اسرائیل نے عالمی رہنماؤں سے کہا ہے کہ وہ فلسطین میں قائم ہونے والی الفتح اور حماس کی اتحادی عبوری حکومت کو تسلیم کرنے میں جلدی نہ کریں۔
اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے کہا کہ پیر کے روز تشکیل پانے والی اتحادی کابینہ ’دہشت گردی کو مضبوط تر‘ کرے گی۔
فلسطینی قیادت نے اسرائیلی خدشات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ کابینہ میں وزرا کو سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر چنا جائے گا۔
کلِک ’امن چاہیے تو حماس سے معاہدہ توڑنا ہوگا‘
الفتح اور حماس 2007 میں علیحدہ ہو گئی تھیں تاہم اپریل میں دونوں کے درمیان امن معاہدہ طے پایا تھا۔ الفتح غربِ اردن کے کچھ علاقے میں برسرِاقتدار ہے جبکہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے والی حماس غزہ پٹی پر حکومت کرتی ہے۔
حماس کو اسرائیل، یورپی یونین، کینیڈا اور جاپان نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
الفتح اور حماس کے اتحاد کا مقصد آئندہ سال ہونے والے انتخابات کی تیاری ہے۔
اتوار کو یروشلم میں اپنی کابینہ سے خطاب کرتے ہوئے بن یامن نتن یاہو نے کہا کہ حماس دہشت گرد تنظیم ہے جو اسرائیل کی تباہی چاہتی ہے اور عالمی برادری کو اسے تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔
اپریل 23 کو الفتح اور محاس کے اتحاد کے اعلان کے بعد اسرائیل نے امریکہ کی مدد سے عمل لائے گئے فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ امن مذاکرات روک دیے۔
محمود عباس اس سے قبل کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل نے انھیں خبردار کیا تھا کہ ایسے امن معاہدے کے صورت میں وہ فوراً حکومت سے تعلق منقطع کر دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیل ہمیں اس حکومت کے لیے حماس سے اتفاق کی سزا دینا چاہتا ہے اور ہر اسرائیلی اقدام کا درست فلسطینی جواب دیا جائے گا۔
محمود عباس کہہ چکے ہیں کہ آنے والی کابینہ اسرائیل کو تسلیم کرے گی اور تشدد کو مسترد کرے گی۔
برطانیہ سے تعلیم یافتہ اور سیاسی طور پر آزاد خیالات کے مالک فلسطینی وزیراعظم رمی حمداللہ کو نئی ٹیکنوکریٹک حکومت کی تشکیل کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
گذشتہ ماہ امریکہ نے اس معاہدے پر افسوس کا اظہار کیا تھا اور خبردار کیا تھا کہ اس سے اسرائیل کے ساتھ امن کی کوششیں پیچیدہ ہوسکتی ہیں۔
تاریخی اعتبار سے فلسطینی قوم پرست تحریک میں الفتح مرکڑی دھڑا رہی ہے تاہم جنوری 2006 کے انتخابات میں حماس نے کامیابی حاصل کر لی تھی۔